لاہور پولیس نے یوٹیوبر عمران ریاض خان کی گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے انہیں مقامی جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا ہے۔
تھانہ نشتر کالونی میں چھ جون 2024 کو درج کرائے جانے والے مقدمے میں بدھ کو عمران ریاض خان کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔
مقدمے میں عمران ریاض خان پر عبدالرحمن سٹیٹ ایجنسی سے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی فیز نو میں پلاٹوں کی فائلوں کے عوض دو کروڑ 50 لاکھ روپے لینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس سے قبل یوٹیوبر عمران ریاض خان کو گذشتہ شب ایئرپورٹ کے راستے سے گرفتار کیے جانے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا گیا تھا۔
ایڈوکیٹ اظہر صدیق نے بدھ کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ وفاقی اور صوبائی اداروں نے لاہور ہائی کورٹ میں عمران ریاض خان کے خلاف تفصیلات جمع کرا دی تھیں۔
عمران ریاض خان کے خلاف نیب، ایف آئی اے، پنجاب پولیس، اینٹی کرپشن نے رپورٹ جمع کرائی تھی جس کے مطابق متعلقہ اداروں کو کسی مقدمے یا انکوائری میں گرفتاری مطلوب نہیں تھی لیکن منگل اور بدھ کی درمیانی سب عمران ریاض خان کو حج پر جاتے ہوئے ایئرپورٹ سے سادہ اور پولیس کی وردی میں ملبوس افراد نے حراست میں لے لیا۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عمران ریاض خان کی بازیابی کےلیے احکامات جاری کیے جائیں، اگر کسی مقدمہ میں گرفتار کیا گیا ہے تو تفصیلات بتائی جائیں۔
درخواست میں استدعا کلی گئی ہے کہ عدالت پولیس، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن سمیت دیگر کو گرفتاری کی وجوہات فوری پیش کرنے کا حکم دے۔
سابق اینکر اور صحافی عمران ریاض خان کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہونے سے قبل احرام میں ہی لاہور ایئر پورٹ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اس سے قبل رواں ماہ بھی انہیں حج کی ادائیگی کے لیے جاتے ہوئے جہاز میں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
تاہم لاہور پولیس کے ترجمان نے عمران ریاض کی گرفتاری سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
عمران ریاض کے وکیل اور دوست علی اشفاق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’منگل اور بدھ کی شب عمران ریاض کو وہ لاہور کے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے چھوڑنے گئے۔ فیملی اور دیگر دوست بھی ساتھ تھے جب ایئر پورٹ پر پہنچے تو باوردی اور سول کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے عمران ریاض کو گرفتار کر لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی اشفاق نے بتایا کہ ’عمران ریاض نے احرام باندھا ہوا تھا اور گھر سے روانہ ہونے سے قبل ہی انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ ایئر پورٹ پر پولیس کی بھاری نفری موجود ہے۔ جو انہیں گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ مگر وہ پھر بھی وہاں پہنچ گئے کیوں کہ ہمارے پاس ای سی ایل سے نام نکالنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات موجود تھے۔
’لیکن ایس پی لاہور کینٹ نے یہ احکامات دیکھ کر بھی عمران ریاض کو بورڈنگ کے لیے جانے کی جازت نہیں دی۔ بلکہ انہیں گاڑی میں ڈال کر لے گئے نہ ہی گرفتاری کی باقاعدہ تصدیق کی جا رہی ہے اور نہ ہی کسی مقدمے کا بتایا گیا ہے۔‘
عمران ریاض کے دوست علی اشفاق نے کہا کہ ’گرفتاری سے چند گھنٹے بعد تھانہ نصیر آباد سے محرر نے فون کال کی کہ عمران ریاض کے کپڑے پہنچا دیے جائیں۔ انہوں نے احرام پہنا ہے وہ اتار کر عام کپڑے پہنیں گے۔
’ہم نے کپڑے پہنچائے اور پولیس اہلکاروں سے درخواست کی کہ عمران سے ملاقات ہی کرا دیں یا کم از کم یہ بتا دیں انہیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے مگر نہ ملاقات کی اجازت دی گئی اور نہ ہی کسی مقدمے کا بتایا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسی ماہ پہلے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکال کر انہیں حج کے لیے سعودیہ جانے کا کہا گیا تھا۔ مگر اس وقت بھی پولیس نے انہیں روانگی سے روک دیا تھا۔ جس پر دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے وزارت داخلہ میں 10 لاکھ زر ضمانت جمع کرانے کی ہدایت کی وہ بھی جمع کرا دیے گئے۔ لیکن پھر بھی روانگی سے روک دیا گیا اور گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
اس بارے میں لاہور پولیس سے رابطہ کیا گیا لیکن ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
اس سے قبل بھی عمران ریاض خان کی گرفتاری کے بعد پہلے پولیس لاعلمی کا اظہار کر کے بعد میں عدالتوں میں گرفتاری تسلیم کر چکی ہے۔