پی ڈبلیو ڈی کے خاتمے کا فیصلہ: کیا حکومت نے ہوم ورک مکمل کیا ہے؟

حال ہی میں وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کو ختم کرنے کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اگرچہ اس کی وجہ ’کرپشن‘ بتائی جا رہی ہے، لیکن اس حکومتی فیصلے پر کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

15 جون 2024 کو وزیراعظم شہباز شریف قوم سے خطاب کرتے ہوئے (اے پی پی)

حال ہی میں وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کو ختم کرنے کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اگرچہ اس کی مبینہ وجہ ’کرپشن‘ بتائی جا رہی ہے، لیکن اس حکومتی فیصلے پر کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت ایک ادارے کو بند کرنے جا رہی ہے؟ اگر حکومت نے ادارے میں بہتری کے بجائے اسے بند کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس ادارے کو ختم کرنے سے حکومت کو کتنا فائدہ ہوگا اور اس ادارے کے ملازمین کا مستقبل کیا ہو گا؟

وزیراعظم شہباز شریف نے ادارے کی ’خراب کارکردگی اور بدعنوانی‘ کی وجہ سے اسے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایکس پر اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا: ’کرپشن اور نااہلی کے لیے زیرو ٹالرنس ہے۔ پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرنے کا میرا فیصلہ اس ناسور کو دور کرنے کی طرف ایک قدم ہے جو ہمارے نظام کو اندر سے کینسر کی طرح کھا رہا ہے۔ ‘

پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو 1854 میں برصغیر پاک و ہند کے دور میں لارڈ ڈلہوزی نے قائم کیا تھا، جس کا مقصد خطے میں تعمیراتی منصوبوں پر عمل درآمد تھا۔

1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد اس کا نام پاکستان پی ڈبلیو ڈی رکھ دیا گیا۔ اب یہ وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس سے منسلک محکمہ ہے، جہاں تقریباً سات ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔ اس کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے جبکہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں ذیلی دفاتر بھی موجود ہیں۔

یہ ادارہ وفاقی حکومت کی عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے منصوبوں پر عمل درآمد کرتا ہے۔ اس محکمے کی ویب سائٹ پر اسلام آباد میں ماڈل جیل، نیب کے ہیڈکوارٹرز کی تعمیر سمیت ملک بھر میں سڑکوں کی تعمیر کے کئی منصوبوں کا ذکر ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے وفاقی وزرا سے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق ہوئی کہ حکومت کے پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے سے متعلق فیصلے کے بعد اس معاملے پر پیش رفت بھی ہوئی ہے اور حکومت نے اب ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے انڈپینڈٹ اردو کو بتایا کہ پی ڈبلیو ڈی میں کرپشن کے باعث اسے ختم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے پی ڈبلیو ڈی کے خاتمے کے فیصلے کی کئی وجوہات ہیں، جو متعلقہ محکمہ ہی بتائے گا۔

’پی ڈبلیو ڈی ایک منتقل شدہ موضوع ہے، وفاق میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) موجود ہے تو پی ڈبلیو ڈی کی اس طرح کوئی ضرورت نہیں۔‘

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس ریاض حسین پیرزادہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے سے متعلق حکومت نے ان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ’حکومت کی ایک تجویز ہے جس پر مشاورت جاری ہے اور ابھی حتمی تجاویز تیار کی جائیں گی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’ابھی اس معاملے پر کوئی پیش رفت ہی نہیں ہوئی لیکن میڈیا نے چلانا شروع کر دیا ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ابھی تو صرف ایک کمیٹی بنی ہے، اہم فیصلہ تو آگے کرنا ہوگا۔‘

پاک پی ڈبلیو ڈی کے کنٹریکٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر راجہ ہارون رشید نے ایک بیان میں ادارے کے خاتمے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ڈبلیو ڈی ایک آئینی ادارہ ہے اور وزیراعظم نے تجاویز کے لیے جو کمیٹی بنائی ہے اس میں وزارت قانون کا کوئی افسر شامل نہیں، جس سے قانونی مشورہ لیا جا سکے۔‘

ان کا اصرار تھا کہ ’ادارے کو بند کرنے کے بجائے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘

دوسری جانب محکمے کے ملازمین حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ملک بھر میں کئی روز سے سراپا احتجاج ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محکمہ پی ڈبلیو ڈی کی یونین کے رکن شوکت سلہری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اگر حکومت نے اس فیصلے کو واپس نہ لیا تو یونینز اس کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اقدام صرف دوسری سرکاری تعمیراتی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے، جس کو سی ڈی اے کے تحت تمام ترقیاتی منصوبوں میں فری ہینڈ دیا گیا تھا۔‘

وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے گذشتہ ماہ 31 مئی کو ڈائریکٹر جنرل پی ڈبلیو ڈی کے نام ایک خط لکھا تھا، جس میں محکمے کی مالی پوزیشن، کارکردگی اور ملازمین کی تفصیل مانگی گئی ہے جبکہ وزارت نے محکمے کے زیر انتظام سرکاری املاک، اثاثوں، واجبات اور زمینوں کی تفصیلات بھی طلب کر رکھی ہیں۔

پی ڈبلیو ڈی کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ اس ادارے کو ’آئینی تحفظ حاصل ہے۔ پی ڈبلیو ڈی کو بند کرنے کے لیے کسی بھی حکومت کو کم از کم دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔‘

تاہم آئین پاکستان کے مطابق رولز آف بزنس میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار نہیں ہوتی۔

مذکورہ عہدے دار نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی بیشتر سرکاری املاک اور عمارتوں کا نگہبان ہے، جن میں پارلیمنٹ لاجز، منسٹرز انکلیو، گلشن جناح، چمبہ ہاؤس اور ایم این اے ہاسٹل شامل ہیں۔ پی ڈبلیو ڈی پاکستان بھر میں ترقیاتی منصوبوں کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’جو محکمے خسارے میں جا رہے ہیں یا جن کی اوور لیپنگ ہو رہی ہے، جیسے پی ڈبلیو ڈی ہے، انہیں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جیسے اسلام آباد میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، راولپنڈی میں راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور لاہور میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے، تو ان اداروں کا کام پی ڈبلیو ڈی سے اوور لیپ ہوتا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’ملازمین کو تاحال نہیں بتایا گیا کہ ان کا کیا مستقبل ہوگا۔ بعض اطلاعات ہیں کہ انہیں دیگر محکموں میں ضم کیا جاسکتا ہے یا پھر گولڈن ہینڈ شیک دیا جائے گا۔ البتہ ملازمین کو ابھی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔‘

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پی ڈبلیو ڈی تنزلی کا شکار اس وجہ سے بھی رہا کیونکہ یہ کبھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔ ’اس ادارے کے تباہ ہونے کی ایک وجہ وزیر، رکن قومی اسمبلی، محکمے کے اندر چیف انجینیئر و ایکس سی این اور ایس ڈی او بھی ہیں۔‘

چند سال قبل وفاقی حکومت نے پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی وجہ بھی ادارے کی ’ناقص کارکردگی اور کرپشن‘ بتائی گئی تھی۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 12 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر میں بھی اعلان کیا تھا کہ پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) بند کر دیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے اس کی وجہ حکومتی اخراجات میں کمی اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی حکمت عملی کو قرار دیا تھا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا: ’ہم غیرضروری اخراجات کم کر رہے ہیں لہذا وفاقی حکومت کے حجم اور وسائل کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس ڈھانچے کا جائزہ لے گی۔‘ یہ کمیٹی ڈھائی ماہ میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ حکومت کو پہلے اپنا ہوم ورک کرکے ادارے کو ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ اس بارے میں حتمی اعلان تک ملازمین میں بے چینی قائم رہنے اور جاری منصوبوں کے کام متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت