زندگی میں بہت سی عیدیں منائیں۔ ہر عید ایک نیا تحفہ، ایک نیا پیغام، ایک نئی خوشی، ایک نیا رنگ لے کر آتی ہے اور بہت سی خوبصورت یادیں ذہن میں نقش کر جاتی ہے۔
خاص کر عیدِ قرباں پر تو الگ ہی رونق میلا سجتا ہے جانوروں کی خریداری، عید کی نماز، قربانی اور پھر روایتی مہمان نوازی اور پکوان، یعنی ہر عید گذشتہ سے بڑھ کر یادگار بنی، مگر اس بار یہ عید مختلف تھی۔
نہ کوئی تحفہ تھا، نہ خوشی البتہ ایک پیغام ضرور تھا کہ ’تمھارا خدا سب دیکھ رہا ہے، اگر ظلم پر خاموش ہو تو آج ان کی، کل تمہاری باری بھی ہوسکتی ہے۔‘
فلسطینیوں کی آنکھ سے نکلے آنسو کا درد صرف انسانیت رکھنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں اور دلاسہ دینے کی جرأت بھی کسی کسی میں ہی ہے، ہاں البتہ تماشائی ہزاروں ہیں اور ان کی سکرینیں فلسطین کے نوحوں سے بھری ہوئی ہیں۔
غزہ کے کھوئے ہوئے مستقبل اور حال سے ناآشنا معصوموں کی دل دہلا دینے والی ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ ادھورے خواب بھی ہیں جن کو سجانے والے، پتھروں سے جنگیں لڑنے والے دنیا سے شکوہ کناں ہیں۔
پھر برق فروزاں ہے سر وادئ سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسار حقیقت
پیغام اجل دعوت دیدار حقیقت
اے دیدۂ بینا
سات اکتوبر 2023 اور آج کا دن۔ نو ماہ سے زائد ہوگئے ہیں۔ فلسطین کے مظلوم روزانہ ایک نئے کربلا کا سامنا کرتے ہیں۔ فلسطین کی فوج کے ننھے سپاہی، نوجوان لڑکیاں، بہادر لڑکے، حوصلہ مند بوڑھے اور توانا جذبوں کی حامل مائیں، بیٹیاں اور خواتین۔ ان کے خاموش سوال پونے دو ارب مسلمانوں کے ضمیر پر تازیانے برساتے ہیں کہ کمزور اور تنہا ہی سہی جنگ تو یوں بھی لڑی جا سکتی ہے۔ تمہارے پاس تو پھر میزائل ہیں، فوجیں ہیں مگر صرف اپنے لیے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ہر طرف لوگ جانوروں کی قربانی کر رہے تھے، تب بھی غزہ اور رفح کے معصوم اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے تھے، جہاں جانوروں کی گردنوں پر الحق کے نام کی چھری پھیری جا رہی تھی، وہیں غزہ کے مظلوم اپنی زبانوں سے الحق کا نام لے کر اپنی گردنیں کٹوا رہے تھے۔
یہ عید مختلف تھی ہر اس درد دل رکھنے والے کے لیے جو اس لاچار باپ کا درد محسوس کرسکتا ہے جس نے اپنے اس ننھے بچے کو اپنے ہاتھ میں اٹھایا جس کا سر تن سے جدا تھا، یہ عید مختلف تھی ان کے لیے جنہوں نے ایمان کا حصہ جان کر غزہ اور رفح کے لیے آواز اٹھائی، احتجاج کیا، دھرنا دیا۔
یہ عید مختلف تھی ان کے لیے جو یہ جانتے ہیں کہ الاقصیٰ کیا ہے۔ یہ عید مختلف تھی خاص کر اس جوان کے لیے جس نے فلسطین کے نام پر تھوڑی سی بھی تکلیف سہی، یہ عید مختلف تھی ہر اس ماں کے لیے جس کی ممتا سب بچوں کے لیے برابر جھلکتی ہے۔ یہ عید مختلف تھی ہر مومن کے لیے۔
مومن تو جاگے ہی ہوئے ہیں بس اس مسلماں کے جاگنے کے منتظر ہیں اہل فلسطین کہ جسے دیکھ کر بھی شرمائے یہود۔
عرب اسرائیل جنگ پرفیض نے بھی کہا تھا ؎
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہے
تائید ستم مصلحت مفتیٔ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے