امریکی محکمہ خارجہ نے ایوان نمائندگان کی جانب سے پاکستان میں جمہوریت کی حمایت میں منظور کی گئی ایک حالیہ قرار داد پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کرے۔
بدھ کو محکمہ خارجہ میں پریس بریفنگ کے دوران ترجمان میتھو ملر سے سوال کیا گیا کہ ’امریکی قانون سازوں نے پاکستان میں جمہوریت کی حمایت میں ایک قرارداد منظور کی، جس میں بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا گیا کہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرے۔ اس پر آپ کوئی تبصرہ کریں گے؟‘
جس کے جواب میں میتھیو ملر نے کہا: ’میں اس قرارداد پر خاص طور پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، لیکن عمومی طور پر کہنا چاہوں گا کہ ہمارے اعلیٰ ترین عہدیداروں سیکرٹری خارجہ اینٹنی بلنکن اور سفیر ڈونلڈ بلوم نے مسلسل نجی اور عوامی طور پر پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے حقوق کا احترام کرے اور اپنی آئینی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا کرے۔‘
ترجمان محکمہ خارجہ نے مزید کہا: ’ہم حکومت پاکستان پر مسلسل زور دیتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کرے جن میں اظہار رائے کی آزادی، وابستگیوں، پرامن اجتماعات اور مذہب کے ساتھ ساتھ پسے ہوئے طبقات جیسے خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام شامل ہے۔‘
امریکہ کے ایوان نمائندگان نے پاکستان میں جمہوریت کی حمایت میں 25 جون کو ایک قرار داد منظور کی تھی، جس میں سیاسی عمل کو ’تباہ‘ کرنے کی کوششوں کی مذمت کی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپبلکن رکن رچرڈ میکارمک اور کانگریس کے رکن ڈین کلڈی نے یہ قرار داد پیش کی جس کے اہم نکات میں آٹھ فروری 2024 کے عام انتحابات میں مبینہ بے ضابطگی یا مداخلت کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ، جمہوریت کی حمایت کے علاوہ، انسانی حقوق، آزادی اظہار کا تحفظ اور جمہوری عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانا شامل ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے 368 ارکان نے پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات میں ’مداخلت یا بے ضابطگی‘ کی آزادانہ اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ سات ارکان نے اس کی مخالفت کی ہے۔
قرارداد 901 میں کہا گیا کہ ایوان نمائندگان ’پاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل کو تباہ کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتا ہے۔‘ تاہم اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سیاسی یا عدالتی عمل کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
مزید کہا گیا کہ ایوان نمائندگان ’پاکستان میں جمہوریت کے لیے اپنی مضبوط حمایت کے عزم کو دہراتا ہے،‘ جس میں پاکستان کے عوام کی مرضی کی عکاسی کرنے والے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات شامل ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پر پاکستان نے گذشتہ روز اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ ’یہ وقت اور سیاق و سباق دوطرفہ تعلقات کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔‘
دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’پاکستان نے 25 جون کو امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے ایوان کی قرارداد 901 کی منظوری کا نوٹس لیا ہے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’پاکستان، دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت اور مجموعی طور پر پانچویں سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر، ہمارے اپنے قومی مفاد کے مطابق آئین پرستی، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی اقدار کا پابند ہے۔‘
دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ’ہم باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی تعمیری بات چیت اور ملاقاتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسی قراردادیں نہ تو تعمیری ہیں اور نہ ہی بامقصد۔ ہمیں امید ہے کہ امریکی کانگریس پاکستان اورامریکہ کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں معاون کردار ادا کرے گی اور باہمی تعاون پر توجہ مرکوز کرے گی جس سے ہمارے عوام اور ممالک دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بعض حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ قرارداد کی منظوری سے پاکستان پر دباؤ بڑھے گا۔
پی ٹی آئی آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کو غیر شفاف قرار دیتی آئی ہے جبکہ امریکہ سمیت بعض ممالک کی طرف سے بھی پاکستان کے حالیہ انتخابات پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔
آٹھ فروری 2024 کو پاکستان کے 12ہویں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا، جس پر چند ممالک گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ اپنے بیانات میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے پاکستان میں عام انتخابات کے دوران ’لیول پلیئنگ فیلڈ، شمولیت اور شفافیت کے فقدان‘ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
لیکن پاکستان کا دفتر خارجہ کہہ چکا ہے کہ چند ملکوں اور اداروں کی جانب سے آٹھ فروری کے عام انتخابات کے حوالے سے منفی اور ’حقائق کے برعکس‘ بیانات پر ’حیرانی‘ کا باعث ہیں۔
10 فروری 2024 کو دفتر خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ ’ہم ان بیانات کے منفی لہجے سے حیران ہیں، جس میں نہ تو انتخابات کے عمل کی باریکیوں کو اور نہ ہی لاکھوں پاکستانیوں کی جانب سے صاف اور پرجوش طریقے سے حقِ رائے دہی کے استعمال کو سمجھا گیا ہے۔‘
امریکی کا انڈیا میں مذہبی آزادیوں کے معاملے پر تشویش کا اظہار
جبکہ دوسری جانب امریکہ نے مذہبی آزادیوں کے معاملے پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اپنے قریبی اتحادی انڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو شائع ہونے والی اس رپورٹ پر بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں، ہم تبدیلی مذہب مخالف قوانین، نفرت انگیز تقاریر، اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے میں تشویش ناک اضافہ دیکھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے دنیا بھر میں یہود اور مسلمان مخالف تعصب میں اضافے کو بھی تشویش ناک قرار دیا ہے۔
جبکہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے امریکی سفیر رشد حسین نے بھارتی پولیس کو بھی ان معاملات میں ملوث قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں مسیحی برادریوں نے اطلاع دی ہے کہ مقامی پولیس نے اس ہجوم کی مدد کی جنہوں نے مذہب تبدیل کرنے کی سرگرمیوں کے الزام میں مسیحی برادری کی عبادت کی خدمات میں خلل ڈالا۔
’ان افراد نے مسیحی عبادت گاہ پر حملہ کیا جبکہ پولیس ایسا ہوتے دیکھتی رہی اور پھر مذہب تبدیلی کے الزامات میں لوگوں گرفتار کیا۔‘
امریکہ کئی دہائیوں سے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ امریکہ انڈیا کی جمہوریت کو چین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر دیکھتا رہا ہے۔
جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کو کئی بار قریبی اتحادی قرار دیا ہے جو حال ہی میں تیسری مدت کے لیے انڈیا کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں عوامی تنقید کے باوجود، یہ امکان کم ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ اس سال کے آخر میں مذہبی آزادی کے معاملے پر ممالک کی اپنی سالانہ بلیک لسٹ کا مسودہ تیار کرتے ہوئے انڈیا کے خلاف کارروائی کرے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کئی اور ممالک کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا جو اس فہرست میں شامل ہیں۔
ان میں انڈیا کا حریف پاکستان بھی شامل ہیں، جہاں بلنکن نے توہین مذہب کے قوانین کی مذمت کی ہے جو ’عدم رواداری اور نفرت کے ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں اور ہجومی تشدد کا باعث بن سکتے ہیں۔‘
اینٹنی بلنکن نے مزید کہا کہ ’امریکہ میں مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے قوم پرست رہنما وکٹر اوربان کی سربراہی میں یورپی یونین کے رکن ہنگری کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’حکام یہود مخالف اور مسلم مخالف بیانات کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ حکومت پر تنقید کرنے والے مذہبی گروہوں کے ارکان کو سزا دیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ نو دیگر یورپی ممالک ’عوامی مقامات پر مذہبی لباس کی کچھ شکلوں پر مؤثر طور پر پابندی عائد کرتے ہیں۔‘
امریکی وزیر خارجہ نے گو کہ ان ممالک کا نام نہیں لیا تاہم فرانس مسلم خواتین پر نقاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے کئی اقدامات کر چکا ہے۔