مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے ہفتے کو حالیہ امریکی قرارداد کے ردعمل میں پیش کی گئی پاکستانی قرارداد پر پاکستان تحریک انصاف کی مخالفت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ہمارا پارٹنر ہے، لیکن ملکی خودمختاری پر حملے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہفتے کو اسلام آباد میں رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ ’پارلمینٹ میں شائستہ پرویز ملک نے ایک قرارداد جمع کروائی، جسے اکثریتی طور پر منظور کیا گیا، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایک مخصوص جماعت غلط بیانیہ بناتی رہی اور قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی۔‘
شائستہ پرویز ملک کی جانب سے جمعے کو ایوان کے سامنے پیش کی گئی قرارداد میں ’امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کو واضح طور پر پاکستان کے سیاسی اور انتخابی عمل کے نامکمل اور غلط فہمی کے نتیجے کو افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’یہ قرارداد آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں لاکھوں پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے آزادانہ استعمال کو تسلیم نہیں کرتی اور پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت قبول نہیں کرے گا۔‘
قرارداد پیش کیے جانے کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے مخالفت کی گئی اور ایوان میں شدید نعرے بازی بھی ہوئی، تاہم قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
آج پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ ’آپ نے امریکہ میں اپنی لابنگ اور پی آر فرمز ہائر کیں اور اس قرارداد کو منظور کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ نے قرارداد منظور کروائی، جو پاکستان مخالف قرارداد ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’کل پارلیمان نے اپنا واضح موقف اور آواز بلند کی اور ایک پیغام دیا کہ پاکستان کے اندورنی معاملات میں کسی قدم کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے، لیکن یہ وہ سیاسی جماعت ہے جو ایبسلوٹلی ناٹ اور امپورٹڈ حکومت نامنظور کا بھاشن دیتی رہی، لیکن کل کیا ہوا، یہ قوم اور عوام کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔‘
بقول لیگی رہنما: ’حقیقت یہ ہے جو آپ کے سامنے ہے کہ وہ مخصوص سیاسی جماعت اور اس کے اراکین پارلیمنٹ نے اس (قرارداد) کی شدید مخالفت کی اور اب جھوٹا ڈھونگ اور ڈرامہ رچا رہی ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ قرارداد پیش کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’دو دن پہلے ہی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ہم امریکی قرارداد کے خلاف ایک قراردار لے کر آئیں گے اور پاکستانی قوم کا موقف پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کے سامنے رکھیں گے۔‘
بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ ’ہم (امریکہ سے) اچھے تعلقات چاہتے ہیں، لیکن ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں لابنگ فرم کے ذریعے۔۔۔ امریکہ کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر تو کچھ نہیں کہتا۔۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’امریکہ ہیومن رائٹس کا چیمپیئن نہیں، ہمیں اس پر ڈکیٹیشن نہیں چاہیے۔‘
انہوں نے 2020 کے امریکی صدارتی الیکشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اس پر بھی اعتراضات ہوئے، ہم نے تو (کچھ) نہیں کہا، یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں۔‘
پریس کانفرنس کے دوران شائستہ پرویز ملک نے کہا کہ ’اگر آج پاکستان کی خودمختاری پر حملہ ہوا ہے اور ہم گنجائش دیں گے تو کل اس سے بڑھ کر ہوگا، اسے روکنا ہوگا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ہم کسی بھی ملک سے خراب تعلقات نہیں چاہتے، امریکہ تو ہمارا ایک پارٹنر ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پارٹنرشپ بہتر ہو، مثبت طرف جائے لیکن یہ نہیں کہ وہ ہمارتی خودمختاری پر حملہ کریں۔
لیگی رہنما نے مزید کہا کہا کہ ’اس میں کیا غلط بات ہے، ہم متحد ہو کر ایک قرارداد نہیں لاسکے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے درخواست کی کہ ’خدارا اس ملک کو آگے بڑھنے دیں، یہ ملک تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔‘
امریکی قرارداد کیا ہے؟
رپبلکن رکن رچرڈ میکارمک اور کانگریس کے رکن ڈین کلڈی نے امریکی ایوان نمائندگان میں 25 جون کو ایک قرارداد پیش کی تھی، جس کے اہم نکات میں آٹھ فروری 2024 کے عام انتحابات میں مبینہ بے ضابطگی یا مداخلت کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ، جمہوریت کی حمایت کے علاوہ، انسانی حقوق، آزادی اظہار کا تحفظ اور جمہوری عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانا شامل ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے 368 ارکان نے پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات میں ’مداخلت یا بے ضابطگی‘ کی آزادانہ اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ سات ارکان نے اس کی مخالفت کی۔
قرارداد 901 میں کہا گیا کہ ایوان نمائندگان ’پاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل کو تباہ کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتا ہے۔‘ تاہم اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سیاسی یا عدالتی عمل کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی ایوان نمائندگان میں منظور کی گئی قرارداد پر ایوان سے اس کا جواب دیا جائے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ رواں ہفتے امریکی ایوان نمائندگان سے منظور کی گئی قرارداد کا جواب وزارت خارجہ بدھ کو دے چکا ہے، جو میڈیا کو بھی جاری کیا گیا۔
’حکومت کی نیت ہے کہ ہم اس قرار داد کے مقابلے میں ایک قرار داد لائیں گے۔ ہمیں لازمی اپنی خود مختاری اور یک جہتی دکھانا ہوگا۔ یہ کوئی تُک نہیں ہے۔ ہم بھی دوسرے ملکوں کے حوالے سے یہاں 50 چیزوں پر تنقید کر سکتے ہیں، لیکن ہم نہیں کرتے۔‘
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ ’ہم نے اس (قرارداد) کا نوٹس لیا ہے، اس قرار داد کا مسودہ تیار ہے، جو پارلیمانی لیڈر اور اپوزیشن کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔ میری درخواست ہے کہ ہمیں اس امریکی قرارداد کے جواب میں لازمی قرارداد لاتے ہوئے یک جہتی دکھانا ہو گی۔‘
امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’یہ وقت اور سیاق و سباق دوطرفہ تعلقات کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔‘
دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’پاکستان نے 25 جون کو امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے ایوان کی قرارداد 901 کی منظوری کا نوٹس لیا ہے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’پاکستان، دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت اور مجموعی طور پر پانچویں سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر، ہمارے اپنے قومی مفاد کے مطابق آئین پرستی، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی اقدار کا پابند ہے۔‘
دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ’ہم باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی تعمیری بات چیت اور ملاقاتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسی قراردادیں نہ تو تعمیری ہیں، نہ ہی بامقصد۔ ہمیں امید ہے کہ امریکی کانگریس پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں معاون کردار ادا کرے گی اور باہمی تعاون پر توجہ مرکوز کرے گی جس سے ہمارے عوام اور ممالک دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔
قومی اسمبلی میں حذب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے مذکورہ قرارداد کے قومی اسمبلی میں پیش ہونے کی صورت میں اس کی مخالفت کا عندیہ دیا تھا۔
پی ٹی آئی آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کو غیر شفاف قرار دیتی آئی ہے جبکہ امریکہ سمیت بعض ممالک کی طرف سے بھی پاکستان کے حالیہ انتخابات پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔