پانچ سابق نیوی افسران کی سزائے موت پر حکم امتناعی میں توسیع

پاکستان بحریہ کے پانچ افسران کو پی این ایس ذوالفقار پر حملے کی منصوبہ بندی پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر نیول جج ایجوٹینٹ جنرل برانچ میں مقدمہ چلا اور 2016 میں سزائے موت سنائی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو پاکستان بحریہ کے پانچ سابق افسران کی سزائے موت روکنے کے حکم میں توسیع کر دی ہے۔

ان افسران کو کراچی ڈاک یارڈ پر 2014 میں ہونے والے حملہ کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے سزائے موت پانے والے سابق نیوی افسران کی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس بابر ستار نے سماعت کے دوران کہا کہ ’وجوہات نہیں بتائی جا رہی ہیں کہ سزائے موت کیوں دی گئی؟ یہ بتانا کہ سزائے موت کیوں دی گئی یہ کوئی خفیہ مسئلہ نہیں، میرے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ سزائے موت کیوں دی گئی، وجوہات بتائی جائیں۔‘

جسٹس بابر ستار نے گذشتہ سماعت پر سزائے موت پر عمل درآمد پر حکم امتناع دیا تھا اور پاکستان نیوی سے جواب طلب کیا تھا۔ آج کی سماعت میں سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے حکم میں آئندہ سماعت تک توسیع کر دی گئی ہے۔

عدالت نے گذشتہ سماعت پر چیف آف نیول سٹاف کا موقف بمع وجوہات سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت جاری کی تھی اور کہا تھا کہ بتایا جائے کہ چیف آف نیول سٹاف کو دستاویزات تک رسائی ریاست کے مفادات کے برخلاف کیوں لگتی ہے؟ پاکستان نیوی کی جانب سے رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ ’کورٹ مارشل کی کارروائی شیئر نہیں کی جا سکتی۔‘

جسٹس بابر ستار نے نمائندہ پاکستان بحریہ کمانڈر حامد حیات سے استفسار کیا کہ ’آپ چاہتے ہیں میں فیصلہ کر دوں؟‘ کمانڈر حامد حیات نے ہدایات لینے کے لیے عدالت سے وقت مانگ لیا، عدالت نے ہدایات لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی، عدالت نے کہا کہ ’آئندہ سماعت کی تاریخ کا تحریری حکم نامے میں بتائیں گے۔‘

سال 2014 میں ہونے والے اس حملہ کے پانچ ملزمان کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سے 2016 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ عدالت نے گذشتہ سماعت کے تحریری فیصلے میں تحفظات اٹھائے کہ ’سوال یہ ہے کہ ریاست کے مفاد کو ایک شہری کے حق زندگی سے کیسے بیلنس کرنا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 اے شہریوں کو زندگی جینے کا حق اور فیئر ٹرائل کا حق فراہم کرتے ہیں۔‘

سیاق و سباق

ملزمان میں سابق لیفٹننٹ ارسلان نذیر ستی، سابق لیفٹننٹ محمد حماد، سابق لیفٹننٹ حماد احمد خان، سب لیفٹننٹ عرفان اللہ اور سیلر طاہر رشید شامل تھے۔

ملزمان کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بعد ازسماعت ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ’اس کیس میں جرم، ٹرائل اور سزا سے متعلق ریکارڈ انہیں آج تک نہیں ملا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان بحریہ کے پانچ افسران کو پی این ایس ذوالفقار پر حملے کی منصوبہ بندی کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر نیول جج ایجوٹینٹ جنرل برانچ میں مقدمہ چلایا گیا اور 2016 میں انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔‘

پاکستان بحریہ کے سابق افسران نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کررکھی ہیں۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’ملزمان سے شواہد اور کورٹ آف انکوائری کی دستاویزات بھی شیئر نہیں کی گئیں، ان دستاویزات تک رسائی کے بغیر سزائے موت کے خلاف اپیل فائل کی گئی جو مسترد ہوئی۔‘

نیوی ڈاک یارڈ حملہ

چھ ستمبر 2014 کو کراچی کے ساحل پر قائم نیوی ڈاک یارڈ پر ہونے والے حملے میں نیوی کے اہلکاروں کے درمیان چھ گھنٹے تک فائرنگ کے تبادلے میں نیوی کا ایک اہلکار جان سے گیا تھا جبکہ تین حملہ آور بھی مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ نیوی کے ایک افسر سمیت چھ اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد اس وقت کی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں یہ بیان بھی دیا تھا جس میں کہا تھا کہ ’کراچی میں نیوی ڈاک یارڈ پر ہونے والے حملے میں نیوی کے اہلکار بھی شامل ہیں جن سے تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

نیوی ڈاک یارڈ میں نیوی کے جنگی جہازوں اور آبدوزوں کی مرمت کی جاتی ہے۔

اس وقت میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ حملہ آور پی این ایس ذوالفقار نامی جنگی جہاز کو ہائی جیک کر کے ایندھن بھرنے والے ایک امریکی جہاز کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان