امریکہ اور فرانس کا سیاسی انتشار یورپ کے مستقبل کے لیے خطرہ

یورپ میں گزرے وقت نے یاد دہانی کروائی کہ امریکہ کے مقابلے میں یورپ تعلیم یافتہ، کاسموپولیٹن اور تہذیب یافتہ براعظم ہے، جہاں لوگ غیرملکیوں کو ناپسند کرنے والی دائیں بازو کی ہمہ گیر آمریت سے پیدا ہونے والے خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں۔

30 جون 2024 کو فرانسیسی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کے اعلان کے بعد نانٹیس میں میکرون کے حامیوں کا ردعمل (اے ایف پی)

فرانس میں گذشتہ چند دنوں میں میری ایسے بہت سے لوگوں کے ساتھ بات چیت ہوئی، جو مغربی جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں گہرے خوف کا شکار ہیں۔

بااثر ثقافتی شخصیات اور دانشوروں نے انتہا پسندی کے بدترین عروج کے ماحول میں فرانس کی شناخت کے بارے میں اپنے خوف کے بارے میں کھل کر بات کی۔

تارکینِ وطن کے فرانس میں پیدا ہونے والے بچوں کو خدشہ ہے کہ ان کی یورپی شہریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ میں نے جن لوگوں سے بات کی ان میں ہر ایک اس کے لیے پرعزم تھا کہ اس کے ووٹ کی اہمیت ہو۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے ’انتہاپسند‘ مخالفین میں سے کسی ایک نے پارلیمانی اکثریت حاصل کر لی تو فرانس کے خانہ جنگی کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ اس کامیابی کے بعد یہ پارٹی میکروں کی طرف سے اگلے ہفتے قبل از وقت کروائے جانے والے اہم نتائج کے حامل عام انتخابات میں پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔

بائیں بازو کا نیو پاپولر فرنٹ بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے، جو میکروں کے اعتدال پسند اتحاد کے خاتمے کی طرف اشارہ ہے۔

جیسا کہ فرانسیسی دانشور نے کہا ہے کہ میکروں کے قبل از وقت انتخابات کے جوئے سے فائدہ ہوا تو ’وہ حکمت علمی کے زبردست ماہر‘ ثابت ہوں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو’تاریخ میں انہیں ایسے شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جنہوں نے فرانس کی سیاسی جماعتوں کے روایتی نظام کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور پانچویں جمہوریہ (با اختیار صدر اور وزیراعظم) کے سرکاری اداروں کو بری طرح نقصان پہنچایا۔‘

انتہائی دائیں بازو کی رہنما میرین لی پین نے یوکرین کے لیے فرانس کی حمایت اور میکروں کی دفاعی پالیسی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو کم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اگرچہ میکروں یورپ میں یوکرین کے سخت ترین حامیوں میں سے ایک رہے ہیں، لیکن لی پین کا پوتن کی حمایت کا طویل ریکارڈ ہے۔ میکروں نے ان پر کریملن کا تنخواہ دار ہونے کا الزام عائد کیا۔

مالیاتی منڈیوں کو بائیں بازو اور دائیں بازو دونوں کی جانب سے غیر معمولی معاشی تجاویز سے دھچکا لگا ہے اور اس مہم میں یہود دشمنی، اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور تارکینِ وطن مخالف اشتعال انگیزی نمایاں ہیں۔

چاہے اس کا نتیجہ انتہائی دائیں بازو کی حکومت ہو، انتہائی بائیں بازو کی حکومت یا مخلوط پارلیمان، بہت کم لوگوں کو شک ہے کہ فرانس جو یورپی یونین میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، عدم استحکام اور تقسیم کے نئے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بہت کم یورپی ممالک انتہائی دائیں بازو کے عروج سے متاثر نہیں ہوئے۔

ہنگری، آسٹریا اور جمہوریہ چیک میں پاپولسٹ دائیں بازو کے رہنماؤں نے تارکین وطن مخالف، یورپی انضمام مخالف اور یوکرین مخالف ایجنڈے کے ساتھ ’پیٹریاٹس فار یورپ‘ کے نام سے پارلیمانی بلاک قائم کیا۔

برطانیہ منفرد ملک ہے جو اس رجحان کا مقابلہ کر رہا ہے اور جمعرات کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بائیں جانب رجحان رکھنے والی اکثریت سامنے آئے گی۔

واشنگٹن میں نیٹو کے 75 ویں سالانہ سربراہ اجلاس سے قبل پریشان یورپی شہری بحر اوقیانوس کے اُس پار اس یقین کے ساتھ نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہونے جا رہے ہیں۔

فکر کی بات کیا ہے؟ کیونکہ ٹرمپ کی صدارت یوکرین کے لیے تباہی کا باعث بنے گی کیونکہ پوتن کے ساتھ ان کی وابستگی ڈھکی چھپی نہیں۔

جمہوری اصولوں کے بارے میں ٹرمپ کا بدنام زمانہ متضاد رویہ دنیا بھر میں آمروں اور فاشسٹوں کو مزید مدد فراہم کرے گا۔ ہم غزہ کے تنازعے سے نمٹنے کے بائیڈن انتظامیہ کے طریقہ کار پر حیران ہو سکتے ہیں، لیکن کم از کم اسرائیل پر نرمی سے دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں تک کچھ امداد پہنچانے کی اجازت دے۔

کیا کوئی ایسا شخص موجود ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اگر فلسطینیوں کو بھوکا چھوڑ دیا گیا یا انہیں ان کے وطن سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا گیا تو ٹرمپ کی نیند اڑ جائے گی؟

پہلی مدت صدارت کے دوران ٹرمپ کے بدترین رجحانات کا راستہ مضبوط اور بااثر وزرا کا تقرر کر کے روکا گیا اور یہاں تک کہ جان بولٹن جیسی جارحانہ مؤقف رکھنے والی شخصیات نے بھی ممکنہ طور پر تباہ کن اثرات کی حامل پالیسی غلطیوں کو روکا۔

بائیڈن سے پہلے ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے افغانستان سے تیزی سے انخلا کا حکم دیا جبکہ بیرون ملک امریکی ذمہ داریوں سے جان چھڑوانے کی کوشش کی۔ 

ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں جن لوگوں کو مقرر کیا جائے گا، وہ ایم اے جی اے (میک امریکہ گریٹ اگین) کا نعرہ لگانے والے یس مین ہوں گے۔ نیٹو ممالک کو خدشہ ہے کہ یہ اتحاد ٹرمپ کے اگلے دورِ صدارت کی صورت میں اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے گا۔

تازہ ترین صدارتی مباحثے میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے ٹرمپ اور لڑکھڑاتے بائیڈن نے مغربی جمہوریت کو اس سے زیادہ بدنام کیا، جس کی ماسکو، تہران یا بیجنگ توقع کر سکتے ہیں۔ یہ مباحثہ اتنا برا تھا کہ بائیڈن کے بہت سے اتحادی ان سے الیکشن دستبرداری کی درخواست کر رہے ہیں۔

اگر بائیڈن صدارتی الیکشن سے پیچھے ہٹ گئے تو انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر یاد کیا جائے گا، جنہوں نے اپنی قوم کو ترجیح دی۔ ڈتے رہ کر ہارنے کی صورت میں ان کی ایسے صدر کے طور پر تاریخی بدنامی ہو گی جنہوں نے اپنی انا کی وجہ سے امریکی جمہوریت کو خطرے میں ڈالا۔ 

ایک اور انتہائی اہم انتخابی معرکے میں ایران میں صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں ’اصلاح پسند‘ امیدوار مسعود پزشکیان  سخت گیر سعید جلیلی کا مقابلہ کریں گے۔ شاید فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ دل کے ڈاکٹر جیسے نرم خو امیدوار مسعود پزشکیان کے انتخاب کے نتیجے میں تہران کے امریکی ہدف بننے کا خطرہ کم ہو جائے گا، اس امکان کے پیش نظر کہ ایٹمی بٹن لاابالی ٹرمپ کے ہاتھ میں آ جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے باوجود ایرانی حکومت کی طرف سے کشیدگی کو ہوا دینے والی زبان کا استعمال جاری ہے۔ اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا کہ اسرائیل کی لبنان میں ’فوجی جارحیت‘ کی صورت میں ’تباہ کن جنگ‘ شروع ہو جائے گی۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاتز نے بھی اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’جو رجیم تباہی کی دھمکی دے، وہ تباہ کر دیے جانے کے قابل ہے۔‘

میکرون نے خبردار کیا ہے کہ یورپ کو ٹرمپ کے زیر اثر ’ناقابل اعتماد امریکہ‘ کے خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے زیادہ آزاد، زیادہ خودمختار یورپ پر زور دیا، جو اپنا دفاع کرنے اور تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو۔

 تاہم اس وقت جب ٹرمپ کی نئی مدت صدارت قریب دکھائی دے رہی ہے، نیشنل ریلی کے ابھرنے سے میکروں کے یورپی فوجی انضمام پر زور دینے کے اختیارات میں کمی کا خطرہ ہے۔ تقریباً 200 فرانسیسی سفارت کاروں نے عوامی سطح پر اپیل میں کہا کہ ’ہمارے دشمن انتہائی دائیں بازو کی فتح کو فرانس کے کمزور ہونے کے طور پر دیکھیں گے‘ اور ’یورپ کے خلاف جارحیت‘ کی حوصلہ افزائی کے طور پر دیکھیں گے۔

ایسے وقت میں جب یورپی یونین اور نیٹو کے رکن اہم ملک فرانس کو عدم استحکام کا سامنا ہے، جرمنی بھی معاشی کمزوری اور انتہائی ابھرتے ہوئے انتہائی بازو کے مسائل کا شکار ہے اور برطانیہ پہلے یورپی یونین سے نکل چکا ہے، یورپی آزادیوں اور جمہوریت کو اس سے قبل اس طرح کا خطرہ کبھی لاحق نہیں ہوا۔ اس پر میکروں نے خبردار کیا کہ ’یورپ فانی ہے۔ وہ مر سکتا ہے اور اس کے مستقبل کا انحصار مکمل طور پر ہمارے فیصلوں پر ہے۔‘ 

یورپ میں گزرے میرے حالیہ دنوں نے اس بات کی یاد دہانی کروائی ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں یورپ اعلیٰ تعلیم یافتہ، کاسموپولیٹن اور تہذیب یافتہ براعظم ہے، جہاں بڑی تعداد میں لوگ آباد ہیں، جو غیرملکیوں کو ناپسند کرنے والی دائیں بازو کی ہمہ گیر آمریت سے پیدا ہونے والے خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں۔

مغربی دنیا کا مستقبل خطرے میں ہے اور لوگ جو ترقی اور آزادی کی حمایت کرتے ہیں, وہ اپنے پسندیدہ طرز زندگی کو بچانے کے لیے فیصلہ کن لڑائی شروع کر رہے ہیں۔

بارعہ علم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں اور متعدد سربراہان مملکت کے انٹرویوز کر چکی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر