روسی رہنما کے یوکرین پر بھر پور حملے کے آغاز کے بعد پہلی بار انڈین وزیراعظم نریندر مودی روس کے صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ اپنی پہلی ون ٹو ون سربراہی ملاقات کے لیے روس پہنچے ہیں۔
اپنی تیسری مدت کے لیے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد مودی کے پہلے دوطرفہ دورے کے لیے یہ ایک انتہائی علامتی منزل کا انتخاب ہے اور ایک ایسا دورہ ہے جس پر کریملن نے اتنی خوشی ظاہر کی ہے کہ مغرب ’حسد‘ کا شکار ہو جائے۔
مودی اس روایت کو بھی توڑ رہے ہیں جس کے تحت عام طور پرانڈین وزرائے اعظم اپنی حکومت کا پہلا دورہ ہمسایہ جنوبی ایشیائی ممالک جیسا کہ سری لنکا، مالدیپ یا بھوٹان کا کرتے ہیں۔
اور یہ مشرقی اور مغربی تقسیم میں دونوں جانب سے کردار ادا کرنے کی انڈین صلاحیت پر بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاسی ہے جو روس کے یوکرین کے خلاف جنگ شروع کرنے کے بعد سے ڈرامائی طور پر بڑھ گئی ہے۔
مودی ماسکو کے اپنے دورے کے بعد آسٹریا کا دورہ کریں گے جس نے یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت کی کوشش کی حمایت کی ہے اور اسے انسانی امداد کے طور پر کروڑوں یوروز فراہم کیے ہیں۔
پوتن اور مودی منگل کو ملاقات سے ایک دن سے پہلے پیر کی رات عشائیہ پر غیر رسمی بات چیت کرنے والے تھے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ ’دنیا کو درپیش متعدد جغرافیائی سیاسی چیلنجز‘ پر تبادلہ خیال کریں گے، اور یہ کہ اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک ’مستحکم‘ روابط کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پیر کو روس کے لیے طیارے سے روانہ ہوتے ہوئے مودی نے کہا کہ وہ صدر پوتن کے ساتھ ’دوطرفہ تعاون کے تمام پہلوؤں‘ کا جائزہ لیں گے اور ’پرامن اور مستحکم خطے کے لیے معاون کردار‘ ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔
کریملن کے مطابق پوتن، جو اپنی جنگ کو جائز قرار دینے کے لیے اپنے اتحادیوں کی حمایت کا مظاہرہ کرنے اور بین الاقوامی سطح پر انہیں ایک اچھوت کے طور پر پیش کرنے کی مغربی کوششوں کا مقابلہ کرنے کی سخت کوشش کر رہے ہیں، نے کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ’ملاقات میں کسی بھی موضوع پر بات کی جا سکتی ہے۔‘
انڈین حکومت نے یوکرین پر روس کے حملے کی نہ تو مذمت کی ہے اور نہ ہی حمایت، اور جب مودی نے گذشتہ ماہ اٹلی میں جی سیون میں شرکت کے لیے اپنی تیسری مدت کا پہلا غیر ملکی دورہ کیا تھا، انہوں نے اس وقت سوئٹزرلینڈ کی میزبانی میں مغربی قیادت میں یوکرین امن اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
ان مذاکرات میں انڈیا کی نمائندگی اس کے سفیر نے کی تھی اور اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ پر دستخط نہیں کیے تھے، اس نے اصرار کیا تھا کہ روس کو مذاکرات میں شامل ہونا چاہیے۔
کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہرش وی پنت نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یوکرین کے نتیجے میں جس طرح جغرافیائی سیاسی ٹیکٹونک پلیٹیں تبدیل ہو رہی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے پوتن اور مودی کی ملاقات ’طویل عرصے سے زیر التوا‘ تھی۔
انڈیا اور روس کے تعلقات کی ایک بہت پرانی تاریخ ہے، دہلی نے کئی دہائیوں سے ہتھیاروں کی درآمد کے لیے ماسکو پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے۔
جب سے یوکرین کی جنگ شروع ہوئی ہے، امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد انڈیا نے بھی بڑی مقدار میں سستا روسی تیل خریدا ہے، جس سے پوتن کو اپنی جنگ کے لیے مالی مدد ملی ہے۔
اس کے باوجود انڈیا اس بات سے پریشان ہے کہ پوتن اس کے بڑے ایشیائی حریف چین کے کتنے قریب آ چکے ہیں، جس کے ساتھ اس کے سرحدی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوکرین میں ماسکو کی فوجی تعیناتیوں کی وجہ سے انڈیا کو بھی روسی ہتھیاروں کی خریداری روکنی پڑی ہے اور وہ امریکہ، اسرائیل، فرانس اور اٹلی سے مزید ہتھیار خرید رہا ہے۔
پنت کہتے ہیں ’یہ بات چیت اس بارے میں ہوگی کہ انڈیا اور روس کے تعلقات کو کس طرح استوار کیا جائے کیوں کہ بظاہر جو بھی لگتا ہے، یہ اتنے اچھے ہیں نہیں جتنے اچھے لگتے ہیں۔ یہ ایک نئی دنیا ہے. انڈیا کی روس کے ساتھ کوئی مضبوط اقتصادی شراکت داری نہیں ہے۔ لہٰذا یقینا تزویراتی حقائق تبدیل ہو رہے ہیں۔ انڈیا روس کو سمجھنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ اپنی شرائط پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔‘
اس دورے کے ساتھ انڈیا امریکہ کو واضح اشارہ دے رہا ہے کہ وہ دفاعی خریداریوں کے لیے دیگر آپشنز استعمال کرے گا، بالکل ایسے ہی جیسا کہ امریکہ ایک بار پھر چین کے لیے دروازے کھول کر کر رہا ہے۔
رینڈ کارپوریشن تھنک ٹینک کے سینیئر ماہر اقتصادیات ڈاکٹر رفیق دوسانی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’اس ملاقات سے انڈیا کو حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد روس کے مقابلے میں اہم ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مناسب اقدامات اٹھا کر وہ خود کو چین سے بھی زیادہ اہم طاقت کے طور پر پیش کر سکتا ہے جس کے یورپ کے ساتھ تعلقات اس کے اپنے موقف کی وجہ سے خراب ہوئے ہیں۔ اس سے انڈیا کو یوکرین میں امن کا اہم ثالث بننے کا موقع مل سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انڈیا روسی توانائی کی مستقل فراہمی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ کی غیر مستحکم مارکیٹ اور وینزویلا جیسے دیگر ذرائع پر انحصار سے ختم کرنا چاہتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب ہتھیاروں کے تعاون کی بات آتی ہے تو انڈیا بھی یقین دہانی حاصل کرے گا کیونکہ انڈین فوج اب بھی بڑی تعداد میں روسی ہارڈ ویئر استعمال کر رہی ہے۔
چیتھم ہاؤس میں جنوبی ایشیا کے سینئر ریسرچ فیلو چیتگج باجپائی کہتے ہیں کہ ’دفاعی تعاون واضح طور پر ترجیحی شعبہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں سپیئر پارٹس کی فراہمی میں کچھ تاخیر کا پتہ چلا ہے ... یوکرین پر روسی حملے کے بعد۔ مجھے یقین ہے کہ دونوں ممالک ایک فوجی لاجسٹک معاہدہ طے کرنے والے ہیں، جس سے مزید دفاعی تبادلوں کی راہ ہموار ہوگی۔‘
روس کے لیے، اس دورے کے ظاہری نتائج کسی بھی ٹھوس نتائج سے زیادہ اہم ہونے کا امکان ہے. چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ متعدد حالیہ ملاقاتوں کے علاوہ روسی صدر نے شمالی کوریا اور پھر ویتنام کا دورہ کیا ہے تاکہ ایک ایسے عالمی رہنما کے طور پر پیش کی جا سکے جسے اب بھی بین الاقوامی حمایت حاصل ہے۔
پنت کا اصرار ہے کہ مودی کا ماسکو کا دورہ اس مہم میں اب تک کی سب سے اہم کامیابی ہے، کیونکہ انڈیا ایشیا بحرالکاہل میں چین کا ایک کاؤنٹر ویٹ ہے اور مغرب کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات رکھتا ہے۔
پنت نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پوتن کی جانب سے انڈیا میں دلچسپی کی کوششیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ روس مغربی تنہائی سے متاثر نہ ہونے کا ثبوت دکھانا چاہتا ہے اور چین کے ساتھ تعلقات میں اپنی خود مختاری برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
’مجھے نہیں لگتا روس چاہتا ہے کہ اسے چین کے جونیئر پارٹنر کے طور پر دیکھا جائے۔ انڈیا کے ساتھ بات چیت کرکے روس چین کو اشارا دے رہا ہے کہ وہ اپنی خود مختاری برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ چونکہ روس مغرب سے تیزی سے الگ ہوتا جا رہا ہے، اس لیے خطرہ ہے کہ اسے چین کے ماتحت کے طور پر دیکھا جانے لگے گا، جس تصور سے وہ ممکنہ طور پر بچنا چاہتا ہے۔‘
© The Independent