امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے حالیہ قرارداد ایچ آر 901 کی منظوری پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے اتار چڑھاؤ میں ایک اہم لمحے کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہ قرارداد امریکی حکومت سے جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے 2024 کے انتخابات میں مداخلت کے کسی بھی الزام کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میں جمہوری عمل میں شرکت کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کی گئی ہے، جس میں ہراسانی، دھمکیاں، تشدد، غیر قانونی حراست اور انٹرنیٹ تک رسائی پر پابندیاں شامل ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ امریکی قرارداد پاکستان کی سیاسی صورت حال اور انتخابی عمل کے بارے میں ’نامکمل معلومات‘ کی عکاس ہے۔
پاکستان نے باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی تعمیری بات چیت کی خواہش پر زور دیتے ہوئے آئینی اقدار، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے اپنے عزم کا بھی اعادہ کیا۔ پاکستانی حکومت نے امید ظاہر کی کہ امریکی قانون ساز دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں گے۔
اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری پاکستان کے اس جواب پر یقین رکھتی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر مسائل کے الزامات اکثر لگائے جاتے ہیں اور انہیں زیادہ طاقتور ممالک کی جانب سے سیاسی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اگرچہ پاکستانی حکومت کے لیے قابل تصدیق شواہد کے ساتھ جواب دینا ضروری ہے لیکن حکومت کو ان بیانیوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط شہری آوازوں کی بھی ضرورت ہے۔ ایسی آوازیں کم سنائی دیتی ہیں۔
آزاد مقامی سول سوسائٹی تنظیمیں اس صورت حال میں ایک پل کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ایک شہری نقطہ نظر فراہم کرتی ہیں، جو حقیقی جمہوریت اور انسانی حقوق کے خدشات کو دور کرنے کے لیے اہم ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی حکومتیں امریکہ سے اکثر فوجی اور ترقیاتی امداد حاصل کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں پاکستانی سفیر نے افغانستان سے شروع ہونے والے حملوں میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ سے مزید فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک پھلتی پھولتی سول سوسائٹی شفافیت کو فروغ دینے اور منفی تاثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی حکومت کے اقدامات کی حمایت کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں، تاہم پچھلی دہائی سے پاکستان میں کچھ حکومتوں نے ان تنظیموں کو دبانے اور حد سے زیادہ ریگولیٹ کرنے میں اپنے ایشیائی پڑوسی ممالک کی پیروی کی ہے، جس کے نتیجے میں یہاں ایک خلا پیدا ہوا ہے، جس نے مقامی بیانیے کو کمزور کر دیا ہے۔
قرارداد کی منظوری سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون پر بھی طویل المدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف کے نئے اور بڑے پروگرام کا خواہاں ہے، اس کے لیے بھی واشنگٹن کی حمایت انتہائی اہم ہو جاتی ہے۔
جمہوری اصولوں کے لیے کانگریس کی حمایت عالمی قرض دہندگان کو متاثر کر سکتی ہے۔ جمہوریت سے وابستگی کا مظاہرہ ان ممالک کی ساکھ کو بڑھانے کے لیے ایک کلیدی عنصر رہا ہے جو امریکہ اور یورپی یونین کا حمایت یافتہ اقتصادی تعاون حاصل کرنا چاہتے ہیں، جن میں خلیج تعاون کونسل اور خطے میں امریکی اتحادیوں کی سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔
پاکستانی حکومتیں امریکہ سے اکثر فوجی اور ترقیاتی امداد حاصل کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں پاکستانی سفیر نے افغانستان سے شروع ہونے والے حملوں میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ سے مزید فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی سفیر نے واضح کیا کہ ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور امریکہ ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ فریم ورک ایگریمنٹ (ٹی آئی ایف اے) کے تحت تجارتی رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ رابطے وسیع تر شعبوں پر مرکوز ہیں جس میں بہتر ضوابط کا تعین، ڈیجیٹل اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں تجارت کو فروغ دینا اور مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنا شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسے رابطوں کا تسلسل جو جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کا بھی مطالبہ کرتا ہے، یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ امریکہ پاکستان سے سب سے زیادہ برآمدات کرنے والا ملک ہے جس میں ترقی کی گنجائش بھی زیادہ ہے۔
گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکی کمپنیاں پاکستان میں اہم سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ حکومتی اور نجی شعبہ ماحول دوست توانائی کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ حالیہ بزنس ٹو بزنس میٹنگز میں امریکی کمپنیوں نے پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس سے اس بحث نے زور پکڑا ہے کیونکہ امریکہ پاکستان کو ایران کے ساتھ منصوبہ بند گیس پائپ لائن کے متبادل کی پیشکش کر سکتا ہے۔
خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) کا مقصد ون ونڈو سہولت فراہم کرنا ہے اور یہ امریکہ سے آنے والے سرمایہ کاروں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔
پاکستان یو ایس ایڈ سے بھی مستفید ہوتا رہتا ہے، جس کا مقصد تعلیم، صحت، خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا اور دیگر شعبوں میں تعاون شامل ہے۔ توانائی اور زراعت سمیت مزید شعبوں میں بھی یہ تعاون دیکھا جا سکتا ہے جو پاکستان کے جی ڈی پی پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ ’ریچارج پاکستان‘ پروگرام پانی کے نظام اور گرین انفراسٹرکچر پر مرکوز ہے۔
صرف وقت ہی بتائے گا کہ آیا امریکہ کی حالیہ قرارداد مذکورہ بالا تعاون میں سے کچھ کو داؤ پر لگاتی ہے یا نہیں تاہم اس قرارداد کو جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
پائیدار جمہوری اصلاحات کے لیے نہ صرف حکومتی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ مقامی کمیونٹیز، سماجی تنظیمیں اور آزاد تھنک ٹینکس کی فعال شرکت بھی ضروری ہے۔ یہ تنظیمیں مقامی اور بیرون ملک سیاسی ساکھ بنانے کے لیے حکومت کی ساتھی بن سکتی ہیں۔
اگرچہ پاکستانی وزارت خارجہ کا ردعمل بروقت ہے لیکن یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ انتخابات میں بہتری کی گنجائش ہے۔ اپنی کوتاہیوں کو کھلے دل سے دور کرنے سے نہ صرف پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کو تقویت ملے گی بلکہ ملک کی بین الاقوامی ساکھ میں بھی اضافہ ہو گا۔
جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے لیے مضبوط عزم بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعمیری روابط کو آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ یہ عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کو قرض دینے اور اپنی مارکیٹ تک رسائی کو جاری رکھنے کے لیے بھی اہم ہے۔
- بشکریہ عرب نیوز
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔