وفاقی وزیر دفاع اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے ہفتے کو سیالکوٹ میں پریس کانفرنس میں کہا کہ پیر کو پارلیمنٹ میں فیصلہ ہو گا کہ حکومت سپریم کورٹ کے پارلیمان میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گی یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پنڈورا باکس کھل گیا ہے جو قومی مستقبل کے لیے اچھی بات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کل ہم کس ادارے سے کہیں گے کہ آپ نے غیر آئینی کام کیا۔ الیکشن کمیشن بھی آئینی ادارہ ہے اور پارلیمنٹ بھی۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے ہفتے کو میڈیا کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی سطح پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست داخل کرنے کے معاملے پر ابھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست کا آپشن تو موجود ہے لیکن اس کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڈ نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’فی الحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت عدالتی فیصلے پر نظر ثانی اپیل دائر کرے گی یا نہیں۔ نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی۔‘
سپریم کورٹ کے جمعے کو پارلیمان کی مخصوص نشستوں سے متعلق دیے گئے فیصلے کے بعد ایوانوں، خصوصاً قومی اسمبلی، میں حکمران اتحاد کی دو تہائی اکثریت ختم ہو گئی ہے۔
تاہم 209 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں حکومت کی سادہ اکثریت قائم ہے، لیکن حکمرانوں کی قومی اسمبلی میں اکثریت کھو دینے کی وجہ سے قانون سازی میں مشکلات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کو ایوانوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دیا تھا۔
فیصلے میں آٹھ فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آزاد اراکین قومی اسمبلی کو 15 روز میں الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ وہ کے دوبارہ پی ٹی آئی میں شامل ہو سکیں۔
اسی تعداد کے مطابق پی ٹی آئی کو پارلیمان کے ایوانوں میں مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں گی۔
قانونی ماہرین کے خیال سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں حکومتی اتحاد کو نہ صرف قانون سازی بلکہ سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے ناخوش ہے اور اہم سوال یہ ہے کہ قانونی طور پر اس فیصلے کو واپس کروانے کے لیے قانونی آپشنز کیا ہو سکتی ہیں؟
حکومتی آپشنز
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت کے مطابق: ’حکومت کے پاس اس فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف صرف نظر ثانی درخواست دائر کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، کیونکہ اسے انٹرا کورٹ اپیل کے ذریعے قانونی طور پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔‘
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ’عدالت عظمی کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل بھی انہیں ججز کے سامنے رکھی جائے گی، جنہوں نے پہلے فیصلہ دیا لٰہذا جتنی بڑی اکثریت سے یہ فیصلہ آیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظر ثانی اپیل پر بھی فیصلہ تبدیل نہ ہو سکے۔‘
فیصلے کے خلاف قانونی گنجائش
شہزاد شوکت نے کہا کہ اس فیصلے پر ’قانون میں صرف اتنی گنجائش موجود ہے کہ اس کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کی جائے۔ حکومتی وکلا اس فیصلے میں قانونی سقم سامنے لا کر ہی فیصلہ تبدیل کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
’فل کورٹ کے فیصلوں پر عام طور پر سماعت فیصلہ دینے والے جج ہی کرتے ہیں اس لیے نئے سرے سے کوئی بھی معاملہ اٹھانا ممکن نہیں۔ البتہ فیصلے میں جن نکات پر تحفظات کا اظہار کیا جائے انہیں دوبارہ ثابت کرنے کی روایت بھی کم دیکھنے میں آئی ہے۔‘
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اس وقت ہو سکتی ہے جب سپریم کورٹ نے 184(3) میں کوئی آرڈر پاس کیا ہو۔
’لیکن یہ فیصلہ 185کے تحت پشاور ہائی کورٹ کے چیلنج کیے گئے فیصلے کے خلاف دیا گیا ہے، جس کو عدالت نے کالعدم قرار دیا۔ قانون کے مطابق اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔‘
امجد حسین شاہ نے کہا کہ ’اگر حکومت اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل کرتی بھی ہے تو اس سے فیصلہ تبدیل ہونا مشکل ہے کیونکہ 13 میں سے آٹھ ججز کی اکثریت نے یہ فیصلہ دیا ہے۔
’دوسرا اس کیس کی سماعت کے دوران جامع اور تفصیلی دلائل دونوں طرف سے دیے جا چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو اس فیصلے کے خلاف اگر نظر ثانی اپیل کرنا بھی ہے تو دائر کر کے چھوڑ دیں۔ اس کے علاوہ انہیں قانونی طور پر دوبارہ مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں۔‘
فیصلے کے ممکنہ اثرات
وفاقی وزیر قانون نے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’محسوس ہوتا ہے کہ آئین کو ازسر نو تحریر کر دیا گیا ہے، کیونکہ پی ٹی آئی کے اراکین نے الگ الگ انتخابی نشانات کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا اور جیتنے کے بعد الیکشن کمیشن یا پشاور ہائی کورٹ مں نہ پیش ہوئے اور نہ ہی بیان حلفی جمع کروایا کہ ہمارا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ ان سب کا یہ دعویٰ تھا کہ ’ہم آزاد حیثیت میں جیت کر آئے ہیں اور ہمارا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے۔‘
شہزاد شوکت کے بقول، ’عدالت عظمی کے فیصلے میں جن 39 اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی تھی وہ آزاد تصور ہوں گے اور جو پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے اراکین آزاد حیثیت میں تھے انہیں بھی تحریک انصاف میں شمولیت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس کے بعد انہیں مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ ہو گا۔
’یہاں اہم بات یہ ہے کہ قانونی طور پر آزاد اراکین تحریک انصاف کے علاوہ بھی کسی اور جماعت میں شامل ہونے یا آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا اختیار رکھتے ہیں۔‘
امجد حسین شاہ نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ آئین اور پروسیجر کو سائیڈ پر رکھ کر صرف انصاف کے تحت دیا ہے۔ جس کے سیاسی اور معاشی استحکام پر منفی اثرات پڑیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر صرف اس بنیاد پر فیصلہ دینا تھا کہ ووٹ پی ٹی آئی کے نام پر پڑا تو الیکشن ہی دوبارہ کرانے کا حکم دے دینا چاہیے تھا۔
’سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے الیکشن پروسیجر میں بھی مداخلت کی ہے کیونکہ مخصوص نشستوں کی فہرست کے شیڈول میں الیکشن سے پہلے کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ اتنے مہینے بعد پہلی مرتبہ کسی بھی وقت فہرست فراہم کرنے کا جواز بنا دیا گیا ہے جس سے ایوانوں میں آئندہ بھی اس حوالے سے ابہام برقرار رہے گا۔
’یہ فیصلہ بھی 63 اے کے فیصلے کی طرح ہمیشہ متنازع رہے گا، جس سے نہ صرف سیاسی بلکہ پارلیمانی نظام میں بھی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔‘
استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’فیصلے کی سادہ تشریح ہے کہ 13 ججز نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ماننے سے انکار کر دیا۔
’سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 87 میں سے وہ 36 ارکان جنہوں نے الیکشن 2024 کے آغاز سے اختتام تک اپنے آپ کو پی ٹی آئی کا اُمیدوار ڈیکلیئر کیا تھا صرف وہ پی ٹی آئی کے اراکان تصور ہوں گے۔ باقی 41 آزاد ممبران ہوں گے اور وہ 15 دن میں حلف نامہ دے کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہا تھا کہ ’اگر اُنہوں نے کوئی اور پارلیمانی پارٹی جوائن کی تو اُن پر کسی قسم کی فلور کراسنگ کا قانون لاگو نہیں ہو گا۔ اب یہ ساری گیم 41 ممبران کے اردگرد گھومے گی۔ اگلے 15 دنوں میں بڑے اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملیں گے۔‘