سیاست میدان جنگ نہیں، درجہ حرارت کو کم کرنے کی ضرورت ہے: جو بائیڈن

ٹرمپ پر حملے کے بعد اوول آفس سے بائیڈن نے ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا: ’اسے (سیاسی درجہ حرارت کو) ٹھنڈا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسا کریں۔‘

امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد منقسم قوم کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اتوار کو کہا کہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹرمپ پر حملے کے بعد اوول آفس سے بائیڈن نے ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا: ’اسے (سیاسی درجہ حرارت کو) ٹھنڈا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسا کریں۔‘

بائیڈن نے مزید کہا کہ امریکی سیاست کو ’کبھی بھی لفظی میدان جنگ نہیں ہونا چاہیے اور خدانخواستہ قتل کا میدان بھی نہیں۔‘  

ٹرمپ پر ایک ریلی کے دوران فائرنگ کی گئی اور 20 سالہ حملہ آور تھامس میتھیو کروکس کو افراتفری کے دوران سیکرٹ سروس کے ایجنٹوں نے گولی مار دی جس سے وہ مارا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ حملہ آور نے ایسا کیوں کیا۔

ایف بی آئی نے کہا کہ وہ اس حملے کی تحقیقات داخلی دہشت گردی کی ممکنہ کارروائی کے طور پر کر رہی ہے اور کروکس کے فون کی جانچ کی جا رہی ہے تاکہ ان کے ’نظریات‘ کا پتہ لگایا جا سکے۔

صدر بائیڈن نے اپنی صدارت کے دوران اوول آفس سے اپنے تیسرے خطاب میں چھ جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں کے کیپیٹل ہلز پر حملے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صورت حال ہاتھ سے نکل رہی ہے۔

81 سالہ بائیڈن نے کہا کہ ’ہم تشدد کو معمول بننے  کی اجازت نہیں دے سکتے۔ پانچ نومبر کے انتخابات امریکہ کے لیے امتحان کا وقت ہو گا۔‘

حملے کے بعد صدر نے پیر کو ٹیکسس کا دورہ منسوخ کر دیا تاہم وہ رواں ہفتے ریاست نیواڈا کا دورہ معمول کے مطابق کریں گے۔

’میرے عزیز امریکیوں، میں آج رات آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں سیاسی ماحول کو بہتر بنانا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگرچہ ہمارے درمیان اختلافات ہیں، لیکن ہم دشمن نہیں ہیں۔ ہم پڑوسی ہیں، دوست ہیں، ساتھی ہیں، شہری ہیں اور سب سے اہم بات ہم سب امریکی ہیں۔ ہمیں ایک ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔‘

صدر بائیڈن کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ’ہم سب کو ایک امتحان سامنا ہے، جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں، خطرہ بھی بڑھ رہا اور جذبات بھی زیادہ پرجوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہم میں سے ہر ایک پر اضافی ذمہ درای ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے نظریات جو بھی ہوں، ہمیں کبھی بھی تشدد کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کے بعد کہا کہ ’یہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ہم متحد رہیں اور برائی کو جیتنے نہ دیں۔‘
 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


خیال کیا جاتا ہے کہ حملہ آور کے والد نے حملے میں استعمال ہونے والا نیم خودکار ہتھیار خریدا تھا لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ حملہ آور نوجوان نے اس تک کیسے رسائی حاصل کی۔ تفتیش کاروں کو حملہ آور کی کار سے  ایک ’مشکوک آلہ‘ بھی ملا۔

کروکس کے سابق سکول کے ساتھیوں نے اسے ایک اسے ایک پرسکون طالب علم کے طور پر بیان کیا جو اکثر تنہائی کا شکار رہتا تھا۔

ان کے سکول کے ساتھی جیسن کوہلر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’وہ خاموش طبیعت نوجوان تھا لیکن اسے بُلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور ایسا بہت بار ہوا۔‘

حملہ آور کون تھے؟

امریکی ریاست پنسلوینیا میں ہفتے کو ایک ریلی میں سابق صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والے مسلح شخص کی شناخت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) نے تھامس میتھیو کروکس کے نام سے کی ہے جن کی عمر 20 برس تھی اور وہ بیتھل پارک کے رہائشی تھے۔

امریکی حکام نے حملہ آور کے بارے میں کوئی اضافی معلومات جاری نہیں کی ہیں۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق پنسلوینیا کی عوامی عدالت کے ریکارڈ میں حملہ آور کی کوئی مجرمانہ تاریخ نہیں پائی گئی جبکہ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس حملے کے محرکات کا اندازہ بھی نہیں لگا پائے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ووٹر رجسٹریشن ریکارڈ میں تھامس میتھیو کروکس ایک رپبلکن کے طور پر درج ہیں۔

فیڈرل کیمپین فنانس ریکارڈ کے مطابق تھامس میتھیو کروکس نے جنوری 2021 میں ڈونیشن پلیٹ فارم ’ایکٹ بلو‘ کے ذریعے 15 ڈالر کا چندہ بھی دیا تھا۔

مغربی پنسلوینیا کے ’دا ٹریبیون ریویو‘ کے مطابق کروکس نے 2022 میں بیتھل پارک ہائی سکول سے گریجویشن کی جہاں تقریباً 1400 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے نیشنل میتھ اینڈ سائنس انیشی ایٹو سے 500 ڈالرز کا ’سٹار ایوارڈ‘ بھی حاصل کیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تھامس کروکس کے والد 53 سالہ میتھیو کروکس نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے اور اپنے بیٹے کے بارے میں بات کرنے سے پہلے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات کرنے کا انتظار کریں گے۔

امریکی ٹی وی این بی سی کے مطابق بیتھل پارک گریٹر پِٹسبرگ کا جنوبی علاقہ بنیادی طور پر ایک سفید فام لوگوں کا شہر ہے، جو متمول طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ علاقہ ریلی کے مقام یعنی بٹلر، پٹسبرگ کے شمال میں تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

اس علاقے سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ ڈین مالونی نے یو ایس اے ٹوڈے کو بتایا کہ ’کسی کا بھی ایسا کام کرنا پاگل پن ہے۔‘

روئٹرز فوری طور پر کروکس کی جانب سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس یا دیگر آن لائن پوسٹوں کی نشاندہی نہیں کرسکا۔ فیس بک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا نے فوری طور پر اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا پلیٹ فارمز نے ملزم سے متعلق کسی اکاؤنٹ کو ہٹایا ہے یا نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ