جون 2024: پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت 18 ماہ کی بلند ترین سطح پر

پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید کے مطابق بجٹ کے بعد مختلف شعبوں پر بھاری ٹیکسز کے باعث آٹو انڈسٹری بھی متاثر ہوگی۔

پاکستانی کاریگر 2 جولائی 2005 کو ملک میں بنائی جانے والی پہلی گاڑی (ریوو) کے اسمبلنگ پلانٹ میں کام کر رہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی اور گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں کمی آئی تھی (اے ایف پی)

پاکستان میں جون 2024 میں گاڑیوں کی فروخت 18 ماہ کی بلند ترین سطح پر رہی جبکہ اگر صرف اس ماہ کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو رواں برس جون میں مئی کے مقابلے میں گاڑیوں کی فروخت میں 21 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے حال ہی میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جون 2023 کے مقابلے جون 2024 میں گاڑیوں کی فروخت میں 120 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

رواں سال جون کاروں کی فروخت کی حوالے سے آٹو سیکٹر کے لیے اچھا ثابت ہوا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جون 2024 میں گاڑیوں کی بہتر فروخت کیسے ممکن ہوئی؟

انڈپینڈنٹ اردو کو پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی اے ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید نے مالی سال کے اعداو شمار کے بارے میں بتایا کہ ’پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں جون 2023 میں چار ہزار257 یونٹس کے مقابلے میں جون 2024 میں 10 ہزار 128 یونٹس فروخت ہوئے، جون 2024 میں گاڑیوں کی فروخت 19 فیصد ماہانہ اضافے سے 10 ہزار 128 یونٹس رہی۔‘

ڈی جی پاما عبدالوحید کے مطابق: ’گاڑیوں کی فروخت اور قیمتوں میں کمی کے پیچھے کلیدی محرکات میں سے ایک نظرثانی شدہ گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے ضوابط کا نفاذ ہے۔ تاہم ڈھائی سال کے بحرانی دور کے بعد پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت ایک بار پھر سے بڑھنا شروع ہوگئی ہے لیکن یہ عمل مستقل نہیں ہے۔

خدشہ ہے کہ بجٹ کے بعد مختلف شعبوں پر بھاری ٹیکسز کے باعث آٹو انڈسٹری پر بھی اس کا منفی اثر پڑے گا۔ مہنگائی بڑھنے اور قوت خرید میں کمی سے پاکستان میں اب گاڑیوں کی بحال ہوتی صنعت گاڑیوں کی فروخت میں کمی سے ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔‘

پاما کے عہدیدار نے مزید بتایا کہ ’1300 سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں کی فروخت 174 فیصد اضافے کے بعد چار ہزار 522 یونٹس رہی جبکہ 1000 سی سی گاڑیوں نے 898 یونٹس کی فروخت ریکارڈ کی اور جون 2024 میں بسوں اور ٹرکوں کی فروخت 299 یونٹس تک پہنچ گئی جبکہ جیپوں اور پک اپ کی فروخت ایک ہزار 776 سے بڑھ کر تین ہزار 156 یونٹس ہوگئی ہے۔‘

پاکستان میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کو ماہرین مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔

سینیئر صحافی اشرف خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’انڈس موٹرز کی فروخت میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاک سوزوکی کی فروخت میں مئی کے مقابلے جون 2024 میں 15 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسی عرصے میں پاک سوزوکی کے چھ ہزار 885 یونٹس فروخت ہوئے ہیں، ہنڈائی موٹرز کی ریکارڈ فروخت ہوئی ہے۔ اس کمپنی کے ایک ہزار 60 یونٹس فروخت ہوئے ہیں، جو پچھلے ماہ کے مقابلے 55 فیصداضافہ ہے، ہنڈا ایٹلس کی فروخت میں آٹھ فیصد کمی ہوئی ہے۔‘

صحافی اشرف خان کے مطابق: ’ٹویوٹا اور ہنڈا نے تیزی سے اپنی کاروں کی قیمتوں میں کمی کی، تاکہ اس بات کویقینی بنایا جائے کہ ان کی گاڑیوں کی مختلف اقسام 40 لاکھ روپے کی حد سے نیچے رہیں تاکہ نئے ٹیکس کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد، کِیا اور سوزوکی نے بھی جی ایس ٹی کے نظرثانی شدہ ضوابط کے مطابق بالترتیب سٹونک اور سوئفٹ کی قیمتوں کو کم کیا ہے۔ ایل سی کھلنے کے بعد گاڑیوں کے پارٹس آنا شروع ہوئے ہیں، گاڑیوں کی گرتی ہوئی سیلز پر کمپنیاں کافی پریشان رہیں اور صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے آفرز پیش کیں۔‘

تجارت اور معیشت کی خبروں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی بسیم افتخار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آٹوز میں فور وہیلرز اور ٹو وہیلرز کی مانگ زیادہ ہے اور جون 2024 میں گاڑیوں کی زیادہ فروخت کی ایک بنیادی وجہ شرح سود کی کمی ہے، ڈالرز بھی کسی حد تک کم ہوا ہے اور ایل سیز بھی کھلنا شروع ہوئیں اور کسی حد تک پیڑول کی قیمتیں بھی گر گئی تھیں۔

’یہ چند عوامل ایسے تھے جس کی وجہ گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ جبکہ گذشتہ مالی سال اچھا اس لیے نہیں رہا کہ 2023 میں ایل سیز بند تھیں۔‘

مالی سال 2022-2023 کے مقابلے میں مالی سال 2023-2024 کیسا رہا؟

پاما کے اعدادوشمارکے مطابق مالی سال 2023-2024 میں ملک میں گاڑیوں کے 13 لاکھ دو ہزار 79 یونٹس کی فروخت ریکارڈ کی گئی جو مالی سال 2022-2023 کے مقابلے میں تین فیصد کم ہے، مالی سال 2022-2023 کے دوران ملک میں گاڑیوں کے 13 لاکھ 48 ہزار 345 یونٹس کی فروخت ریکارڈ کی گئی تھی۔

آٹو انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے پاما سابق چیئرمین اور ماہر امور آٹو انڈسٹری مشہود خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’آٹو انڈسٹری کو گذشتہ ڈھائی سال سے یہی خدشہ ہے کہ اگلے سال بھی چیلنجز کا سامنا جاری رہ سکتا ہے۔

حالیہ ٹیکسز کے اضافے کے باعث گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے عوام نے گاڑیوں کی خرید و فروخت میں دلچسپی لینا چھوڑی دی، اگر ٹیکسز میں چھوٹ نہ دی گئی تو کاروبار متاثر ہوگا۔ اب شہری گاڑی لینے سے پہلے ٹیکسز کی وجہ سے پرانی گاڑی بیچ کر نئی گاڑی لینے کا سوچنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حالیہ اعدادوشمار پر انڈسٹری نہیں چل سکتی کیوں کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور عوام کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔‘

مشہود خان  نے یہ بھی بتایا کہ ’ٹرک انڈسٹری پاکستان کی ترجیحات میں سے ہے جو حکومت کی جانب سے نظر انداز کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں سات بڑے پلانٹس موجود ہیں، ہم بسیں بنا سکتے ہیں مختلف صوبوں میں لیکن مختلف ممالک سے بسیں درآمد کر رہے ہیں۔ تاہم گذشتہ سال کی نسبت رواں سال کے اعدادوشمال کے مطابق بسوں کی فروخت کا حُجم گھٹ کر دو ہزار623 پر رہا ہے۔‘

مشہود خان کے مطابق: ’موٹر سائیکل کی صنعت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ٹریکٹر کی صنعت نے رفتارپکڑی ہے۔ تاہم بس اور ٹرک انڈسٹری کے لیے مراعات کا فقدان مایوس کن ہے۔‘

پاما کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ ’2024 میں ٹریکٹر انڈسٹری کی کل فروخت بڑھ کر چار ہزار 134 یونٹس تکپہنچ گئی ہے جو کہ سالانہ بنیادوں پر 28 فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر 34 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت