قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے منگل کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے حوالے سے کہا ہے کہ ’نشستیں اس جماعت کو دی گئیں جس کی بنتی ہی نہیں ہیں۔‘
اجلاس کے دوران وزیر قانون اور لطیف کھوسہ کے درمیان پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے سے متعلق بحث ہوئی، جس میں لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’متناسب نمائندگی کی بات کی جا رہی ہے لیکن ہمیں ابھی تک مخصوص نشستیں نہیں دی جا رہیں۔ نظرثانی درخواست سے یہ فیصلہ رک نہیں جاتا۔‘
اس کے جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ ’روز ایک نظر ثانی کی اپیل آ رہی ہے، روز نئے ریویو آتے رہیں گے۔ بڑی ناانصافی ہوئی ہے۔ نشستیں اس جماعت کو دی گئیں جس کی بنتی ہی نہیں ہیں۔‘
بعد ازاں لطیف کھوسہ نے جواباً کہا کہ ’خواتین اور دیگر اراکین کے ساتھ زیادتی ہے جن کو نشستیں نہیں دی جا رہیں۔ کیا حکومت پھر سے تصادم چاہتی ہے؟‘
اس پر وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’اراکین کو بغیر سنے ڈی سیٹ کیا گیا، یہ ابھی ایسے چلتا رہے گا۔‘ لطیف کھوسہ نے کہا کہ کنول شوذب بھی درخواست گزار تھیں جس پر وزیر قانون نے کہا کہ ’کنول شوذب نے کہا سنی اتحاد کونسل کو نشست دیں، سپریم کورٹ نے ولدیت کا خانہ تبدیل کر دیا۔‘
منگل کو قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کا اجلاس چیئرمین محمود بشیر ورک کے زیر صدارت ہوا جس میں سول کورٹس ترمیمی بل 2024 منظور کر لیا گیا۔
اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی عدم شرکت پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں طلب کر لیا۔ کمیٹی رکن لطیف کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ ’وزیر قانون کہاں ہیں؟ اہم اجلاس ہے، وزیر قانون نے شاید اسے اہمیت نہیں دی۔‘
چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک نے وزارت قانون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’اس اجلاس میں اہم بلز ہیں اور آپ کو جوابات دینے ہیں، اجلاس میں وزارت قانون کی نمائندگی پوری ہونی چاہئے۔ اراکین کو آپ سے بہت شکایات ہیں۔‘
لطیف کھوسہ نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ میرے شاگرد رہے ہیں، میں نے انہیں یہ نہیں سکھایا تھا کہ ایسی محفل میں تاخیر سے آتے ہیں۔ چیئرمین نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ سے بھی شکایت ہے کہ آپ نے شاگردوں کو یہ نہیں سکھایا۔‘
سیکرٹری وزارت قانون و انصاف نعیم اکبر نے کہا کہ وہ دوسرے اجلاس میں ہیں، وزیر قانون اسی اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ سیکریٹری قانون راجہ نعیم اکبر نے وزارت کے امور سے متعلق بریفنگ میں بتایا کہ ’سرکاری قوانین کی ڈرافٹنگ اور جانچ وزارت کے امور میں شامل ہے جبکہ پرائیویٹ ممبر بلز پارلیمان سے وزارت قانون میں آتے ہیں، اگر کسی اور وزارت یا ادارے کو قانونی معاونت درکار ہو تو وزارت قانون فراہم کرتی ہے۔ قانونی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کی خدمات لی جاتی ہیں۔‘
اجلاس میں سیکرٹری قانون سول کورٹس نے ترمیمی بل 2024 کمیٹی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ترمیم کے بعد سول جج کے فیصلے کے خلاف اپیل ڈسٹرکٹ جج کے سامنے ہو سکے گی۔‘ لطیف کھوسہ کے مطابق ’یہ ترمیم دیر آید درست آید ہے جو ہائی کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے ہے۔ صوبہ پنجاب میں پہلے ہی یہ قانون نافذ ہے کہ سول عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل ڈسٹرکٹ جج کے پاس جاتی ہے۔‘
کمیٹی رکن نفیسہ شاہ نے کہا ’تصور کر لیا گیا ہے کہ ہم سب وکیل ہیں لیکن یہ سمجھائیں کہ ترمیم سے کیا فرق آئے گا۔ چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ’ترمیم سے اب سول مقدمات کا ٹرائل سول عدالت میں ہو گا اور ڈسٹرکٹ جج کے پاس اپیلیٹ اختیار ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد ازاں کمیٹی نے سول کورٹس ترمیمی بل 2024 اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔
اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 51 اور الیکشن ایکٹ سیکشن 106 میں ترمیم سے متعلق معاملہ زیر غور آیا تو چیئرمین نے کہا کہ کمیٹی نے آئین کو ری رائیٹ نہیں کرنا، آئینی ترمیم کے بل کو دیکھنا ہے۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’قانون سازی ہمیشہ مستقبل کی نسلوں کے لیے ہوتی ہے، آرٹیکل 51 اور سیکشن 106 پر بات کرنے کا جواز موجود ہے۔‘
بل لانے والے رکن قومی اسمبلی نوید عامر جیوا نے کہا کہ ’پاکستان کے قیام کے بعد اقلیتوں کی آبادی 267 فیصد بڑھی لیکن پارلیمان و صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی نہیں بڑھی لہٰذا اقلیتوں کی نشستوں کو پارلیمان میں دو گنا بڑھایا جائے۔ پارلیمان میں خواتین کی نشستوں کو بڑھا کر 60 کیا گیا ہے۔‘
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’ادارہ شماریات سے اقلیتوں کے گذشتہ چار سال کے اعدادوشمار منگوائے جائیں، یہ بات درست ہے آبادی بڑھی ہے تو تعداد بھی بڑھنی چاہیے۔‘ بعد ازاں کمیٹی نے مردم شماری میں اقلیتوں کے اعدادوشمار طلب کر لیے۔
نفیسہ شاہ نے اس معاملے پر مزید بات کرتے ہوئے کہا وہ نوید جیوا کے آئینی بل سے متفق ہیں۔ ’خواتین کی نشستوں میں مزید اضافہ ہونا چاہیے۔ آٹھ خواتین براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئیں، خواتین کو کم ازکم 50 فیصد نشستیں ملنی چاہئیں، ایسی ترمیم پر کوئی جماعت پیچھے نہیں ہٹے گی۔ خواتین کا کوٹہ ختم کر دیں بلکہ خواتین کے لیے براہ راست نشستیں بڑھا دی جائیں تاکہ وہ جیت کر آئیں۔‘
چیئرمین کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے الیکشن لڑنا مشکل کام ہے، اقلیت کے لیے بھی براہ راست الیکشن لڑنا آسان نہیں ہے۔ اقلیتوں کی پارلیمان میں بہتر نمائندگی ہونی چاہیے۔‘