مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل کریں گے: الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن نے اپنی قانونی ٹیم کو ہدایات جاری کی ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی نکتے پر عمل درآمد میں رکاوٹ ہے تو وہ فوراً نشاندہی کی جائے۔

ایک سکیورٹی اہلکار 21 ستمبر، 2023 کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر کھڑا ہے (اے ایف پی/ عامر قریشی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ فل بینچ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

کمیشن نے جمعرات اور جمعے کو مشاورتی اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

’تاہم الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم کو ہدایات جاری کی گئیں کہ اگرسپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی نکتے پر عمل درآمد میں رکاوٹ ہے تو وہ فوراً نشاندہی کریں تاکہ مزید رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔‘

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں پر 12 جولائی کو فیصلے سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیا تھا اور کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ’پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے بعد آزاد اراکین کے حساب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے لیے فہرست (الیکشن کمیشن کو) جمع کروائے اور واضح کرے کہ کس جماعت سے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔‘

الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی ’الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا۔ جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔‘

بیان میں کہا گیا کہ کیونکہ ’پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن درست نہیں تھے۔ جس کے قانونی نتائج میں الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت بیٹ کا نشان ودڈرا (واپس) کیا گیا۔

’لہذا الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔‘

کمیشن کا کہنا تھا کہ ’جن 39 ممبران قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کا ایم این اے قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کے لیے پارٹی ٹکٹ اور ڈیکلریشن ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کروانا ضروری ہے جو کہ ان امیدواروں نےجمع نہیں کروایا تھا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’لہذا ریٹرننگ آفیسروں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو پی ٹی آئی کا امیدوار قرار دیتے کرتے۔ جن 41 امیدواروں کو آزاد قرار کیا گیا ہے انہوں نے نہ تو اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر کیا اور نہ پارٹی کی وابستگی ظاہر کی اور نہ ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع کروایا۔

’لہذا ریٹرننگ افسروں نے ان کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں آئی۔

سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کر دی گئی ۔ پی ٹی آئی اس کیس میں نہ تو الیکشن کمیشن میں پارٹی تھی اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ کے سامنے پارٹی تھی اور نہ ہی سپریم کورٹ میں پارٹی تھی۔

12 جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور کمیشن کے دیگر اراکین سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اسی تنقید پر کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ ’ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر اور معزز ارکان الیکشن کمیشن کو مسلسل اور بے جا تنقید کا نشانہ بنانے پر کمیشن (کے اجلاس) میں اس کی شدید مذمت کی اور اسے مسترد کر دیا۔

بیان کے مطابق ’کمیشن سے استعفے کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔ کمیشن کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا رہے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان