گینگسٹر گرلز: انڈیا میں انڈرورلڈ خواتین کی تعداد میں اضافہ کیوں؟

‌شمالی انڈیا طویل عرصے سے اپنی دلیر خواتین کے لیے جانا جاتا ہے، جس کی مثالوں میں ماضی کی معروف ڈاکو پھولن دیوی اور حال ہی میں سامنے آنے والی انڈرورلڈ گینگسٹر انو شامل ہیں۔

 ہریانہ پولیس کے مطابق انورادھا چوہدری اور ان کے گینگ کے ارکان ہائی پروفائل بھتہ خوری، شراب اور اسلحہ سمگلنگ اور مخالفین کو قتل کر کے زمینوں پر قبضے میں مصروف تھے (اے آر چوہدری جی فیس بک اکاؤنٹ)  

‌شمالی انڈیا طویل عرصے سے اپنی دلیر خواتین کے لیے جانا جاتا ہے، جس کی مثالوں میں ماضی کی معروف ڈاکو پھولن دیوی اور حال ہی میں سامنے آنے والی انڈرورلڈ کی گینگسٹر انو شامل ہیں۔

روسی جریدے ’رشیا ٹوڈے‘ کی رپورٹ کے مطابق 18 جون کو 24 سالہ انو نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے دہلی کے امن جون نامی شخص کو راجوری گارڈن میں واقع ’برگر کنگ‘ ریستوران پر بلا کر مار ڈالا۔

ریستوران میں ان کے درمیان گپ شپ کے چند منٹ بعد کچھ افراد وہاں داخل ہوئے اور جوڑے کے قریب بیٹھ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی پستول نکالی اور امن پر گولی چلا دی۔ وہ کاؤنٹر کی طرف بھاگا اس پر چھلانگ لگا کر چھپ گیا لیکن شوٹر ان کا پیچھا کرتے رہے اور انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس دوران تقریباً تین درجن تماشائی برگر کنگ میں یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بدنام زمانہ گینگسٹر نیرج بوانا کے ساتھی ہمانشو بھاؤ نے قتل کی ذمہ داری قبول کی جہنوں نے اپنے مقتول ساتھی کا بدلا لینے کے لیے یہ منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن یہ انو تھیں جس نے میڈیا کی توجہ حاصل کی۔

مقامی میڈیا میں انہیں ’لیڈی ڈان' کا نام دیتے ہوئے الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ہمانشو بھاؤ کی قریبی معاون تھیں جنہوں نے 'ہنی ٹریپ' کے ذریعے امن جون کو اس جال میں پھنسایا تھا۔

اسی طرح کا ایک اور سنسنی خیز واقعہ جنوری میں پیش آیا تھا جب سابق ماڈل اور گینگسٹر سندیپ گانڈولی کی سابقہ گرل فرینڈ دیویا پاہوجا کو دہلی کے مضافاتی شہر گڑگاؤں کے ایک ہوٹل میں سر میں گولی مار دی گئی تھی۔ 27 سالہ دیویا کی لاش 11 دن بعد ایک نہر سے ملی۔

دیویا پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے 18 سال کی عمر میں اپنے بوائے فرینڈ کو ’ہنی ٹریپ‘ کے ذریعے پھنسایا تھا جنہیں ممبئی پولیس نے مبینہ جعلی انکاؤنٹر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ گذشتہ سال ضمانت حاصل کرنے سے پہلے دیویا نے سات سال جیل میں گزارے تھے۔

رواں سال مارچ میں انورادھا چودھری عرف ’ریوالور رانی‘ نے گلابی ساڑھی پہننے جیل میں قید ایک گینگسٹر سے شادی کرکے اخباروں کی سرخیاں بنائیں۔ پولیس کے دستے شادی کے موقع پر پہرا دے رہے تھے۔

لیکن خواتین انڈرورلڈ کا حصہ کیوں بن رہی ہیں؟

ان گھناؤنے جرائم میں خواتین کی شمولیت کا موجودہ رجحان مئی 2022 میں معروف پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کے قتل سے شروع ہوا تھا۔ مبینہ طور پر لارنس بشنوئی گینگ نے اسے انجام دیا تھا۔

موسے والا اپنی گانوں کی وجہ سے کچھ حد تک متنازع رہے تھے اور 2020 میں ان پر ایک گانے میں گن کلچر کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ماضی میں مزید جائیں تو چھوٹی بچیوں کو سیکس کے لیے سمگل کرنے والی خاتون سونو پنجابن کو 24 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بالی وڈ میں اس گینگسٹر کے کردار سے متاثر ہو کر ایک فلم بھی بنائی گئی ہے۔

اور پھولن دیوی کو کون نہیں جانتا۔ وہ گھریلو تشدد، ریپ اور عوامی تذلیل کا شکار تھیں۔ وہ ان زیادتیوں کا بدلہ لینے کے لیے ڈاکو بن گئی تھیں جن کی دہشت کئی شمالی ریاستوں میں طاری رہی۔

پھلن دیوی اتر پردیش کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ایک نچلی ذات کے گھرانے میں پیدا ہوئی۔ انہوں نے 48 بڑے جرائم کے الزامات اور بغیر کسی مقدمے کے 11 سال تک جیل کاٹی۔ رہائی کے بعد میں سیاست میں آئیں اور پارلیمنٹ کی رکن بنیں اور انڈیا کی نچلی ذاتوں کے لیے ایک ممتاز رہنما بن گئیں۔ انہیں 2001 میں دہلی میں ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔

اس سال مارچ میں چندی گڑھ میں پولیس نے بشنوئی گینگ کے ایک روایتی حریف کو نشانہ بنانے کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے پوجا شرما اور ان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کیا۔

پوچھ گچھ کے دوران پوجا نے انکشاف کیا کہ وہ اس گینگ میں شامل ہوئی تھی کیونکہ وہ بشنوئی کی شخصیت سے مرعوب تھیں اور ان کے قریبی ساتھی سے محبت کر بیٹھی تھیں۔

پولیس نے ’رشیا ٹوڈے‘ کو بتایا کہ یہ گروہ جرائم میں دلچسپی رکھنے والی نوجوان خواتین کو بھرتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا کام جاسوسی یا ہنی ٹریپس تک محدود نہیں ہے۔ کچھ کو کبھی کبھار فائرنگ کا حکم بھی دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا کا پدرانہ نظام اس کی اہم وجہ

دیویانجلی وی اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کی فرانزک سائیکاٹرسٹ ہیں جن کا خیال ہے کہ ملک کا پدرانہ نظام خواتین کے مجرمانہ سرگرمیوں کو منتخب کرنے کی وجہ بن رہا ہے۔ پدرانہ نظام اور مردوں کی بالادستی والے خاندانی ڈھانچے میں خاتون اپنے شوہر، اپنے والد اور سسر یہاں تک کہ اپنے بیٹوں پر انحصار کرتی ہے۔

دیویانجلی نے رشیا ٹو ڈے کو بتایا: ’ہم جانتے ہیں کہ خواتین کے خلاف بہت سارے جرائم ہوتے ہیں کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں۔ خواتین صدیوں سے پدرانہ نظام کا شکار ہیں اور وہ مسلسل نیچے کی طرف دھکیلتی ہوئی محسوس کرتی ہیں۔‘

امریکہ میں قائم جارج ٹاؤن انسٹی ٹیوٹ فار وومین، پیس اینڈ سکیورٹی کی جانب سے جاری انڈیکس 2023 کے مطابق خواتین کی معاشرے میں شمولیت، انصاف اور سلامتی کے معاملے میں انڈیا 177 ممالک میں 128 ویں نمبر پر ہے۔

انڈیا کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح 2018 اور ایسی ہی بدسلوکی کا سامنا کرنے والی شانتا دیوی پاٹکر جرم کی دنیا کا حصہ بن گئیں۔ ’ممبئی کی ڈرگ کوئین‘ کہلانے والی نتاشا نے منشیات فروشی پیسہ کمانے کا ذریعہ بنایا۔

دیویانجلی کا خیال ہے کہ زیادہ تر جرائم ایسے لوگوں کو منطقی نظر آتے ہیں جو بہتر زندگی کی تلاش یا کسی بری صورت حال سے بچنے کے لیے جد و جہد کر رہے ہوں۔

’انہیں یقین ہے کہ یہ جائز ہے۔ یہ محبت کی طرح ایک مضبوط جذبات ہوسکتے ہیں۔‘

گینگسٹر گروپس میں خواتین کا کردار

تہاڑ جیل کی سابق قیدی صائمہ (شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے رشیا ٹوڈے کو بتایا کہ منظم جرائم یا گینگسٹر گروہوں میں شامل خواتین کو ’قابل استعمال چیز‘ سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’گینگ کی سربراہی کرنے والے مرد اپنے بڑی وارداتوں کے لیے مردوں گینگسٹرز کو ہی استعمال کرتے ہیں لیکن چھوٹے کاموں کے لیے خواتین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

ان کے بقول: ’خواتین ڈسپوز ایبل کی طرح استعمال کی جاتی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر پیادوں کے طور پر کام کرتی ہیں اور وقت پڑنے پر ان کو ہی قربانی کے بکرے بنایا جاتا ہے۔

وجوہات

صائمہ نے کہا کہ چونکہ اس شعبے میں آسانی سے اور بہت جلد اور زیادہ پیسہ کمایا جاتا ہے اس لیے خواتین اس کے نتائج سے بے خبر ہوتی ہیں یا انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ اگر کچھ ہوتا ہے تو ان کی حفاظت کی جائے گی لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔

قیدیوں کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن رویندر بی ویدیا نے کہا کہ بڑے شہروں میں خواتین گینگسٹرز زیادہ پائی جاتی ہیں۔

ان کے بقول: ’جرائم کا انداز جغرافیائی علاقے کے لحاظ سے مختلف ہے اور بڑے شہروں اور دیہی انڈیا کے چھوٹے شہروں میں جرائم کے درمیان بہت فرق ہے۔‘

ویدیا کی تنظیم جن دیہاتی خواتین قیدیوں کے کیسز دیکھتی ہے ان میں سے زیادہ تر گھریلو تشدد کے ردعمل میں اپنے شوہروں کو قتل کر دیتی ہیں۔ لیکن شہروں میں منظم جرائم یا گروہوں میں شامل خواتین دیگر وجوہات کی بنا جرائم کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسا طاقت کے حصول کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جرم بھی طاقت کا ایک ذریعہ ہے اور مردوں کا خیال ہے کہ خواتین کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے۔‘

صائمہ کہتی ہیں کہ وہ جیل میں ایسی خواتین کو جانتی تھی جن کا شادی سے پہلے جرم کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن شادی کے بعد تشدد اور دیگر وجوہات کے بعد وہ اس میں ملوث ہو گئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین