پاکستان کے وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے اتوار کو کہا ہے کہ ’دو تین ماہ کی ڈیجیٹلائریشن میں یہ چیز سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں 49 لاکھ نان فائلر ہیں۔ جن کا پورا لائف سٹائل ڈیٹا موجود ہے۔‘
اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ ’ان لوگوں کو اب سینٹرلی ایشوڈ نوٹس بھیجے جائیں گے۔ یہ انکم ٹیکس کا معاملہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سیلز ٹیکس میں چھ سو ارب کا جعلی ڈیٹا ہے جس میں سے ایک ارب ریکور ہوا ہے جبکہ کسٹم ٹیکس میں 50 سے 200 ارب کی مس کلاسفیکیشن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مل کر آواز اٹھانی ہو گی جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے یا کم ٹیکس دے رہے ہیں وہ ملک کی معیشیت کے لیے درست قدم اٹھائیں۔‘
محمد اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ ’جولائی میں اب تک 68 ارب روپے ری فنڈ کیے جا چکے ہیں۔ اگر ٹیکس نیٹ کو وسیع نہ کر سکے تو ہم پہلے کی سطح پر واپس چلے جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں چار مہینے پہلے تک سیلری کلاس میں تھا، لیکن ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والوں میں شامل تھا۔‘
وزیر خزانہ کے مطابق: ’ہم چاہ رہے ہیں ٹیکس کے نظام کو آسان کریں تاکہ ان لوگوں کو ٹیکس وکلا نہ کرنے پڑیں جن کا ٹیکس تنخواہ پر ہی کٹ جاتا ہے اور لوگوں کو شکایات اور ہراسانی کا سامنا نہ ہو۔‘
زرعی ٹیکس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’تمام صوبوں کے وزرائے اعلی کا شکر گزار ہوں کہ وہ ذراعت کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے قانون سازی کریں گے۔‘
ایف بی آر اصلاحات پر انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم خود ایف بی آر اصلاحات کی قیادت کر رہے ہیں اور ہر ہفتے میٹنگ کرتے ہیں۔‘
وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ ’پانچ وزارتوں میں رائٹ سائزنگ کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں، ان میں امور کشمیر و گلگت بلتستان، سیفران، صحت، صنعت و پیدوار، آئی ٹی ٹیلی کام کی وزارتیں شامل ہیں۔
’ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کو کہاں ضم کیا جا سکتا یا کہاں ان میں وسعت کا امکان ہے۔ ان فیصلوں کا اعلان وزیراعظم کریں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب صرف باتیں نہیں کام کیا جائے گا۔ یہ صرف وزارتوں کا معاملہ نہیں بلکہ ان کے ذیلی اداروں کو بھی دیکھ رہے ہیں۔‘
دورہ چین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’جون کے اوائل میں اویس لغاری اور میں چین گئے تھے۔ وہاں پاکستان اور چین کے طویل المدتی تعلقات کے حوالے سے بات ہوئی۔ توانائی کے حوالے سے بات ہوئی، پانڈا بونڈ کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ملاقاتوں میں ’چینی قیادت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی حمایت کی اور اسے سراہا۔ چینی قیادت نے آئی ایم ایف بورڈ میں معاہدے کی منظوری کی حمایت کا بھی کہا ہے۔‘
امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات کے سوال پر وزیر خزانہ نے کا کہ ’ہمیں امریکہ اور چین دونوں بلاکس کے ساتھ آگے چلنا ہے۔ چین ہمارا تزویراتی شراکت دار ہے۔ ہم سی پیک کے فیز ٹو پر بھی بات کر رہے ہیں۔
’امریکہ ہمارا سب سے بڑا تجارتی پاڑٹنر ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ شراکت داری کی بھی قدر کرتے ہیں۔‘
وزیر خزانہ نے بتایا کہ انہوں نے اور وزارت خزانہ حکام نے ریٹنگ ایجنسیز فچ اور موڈیز سے بھی ملاقات کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایکسٹرنل فنائنسنگ کا فرق سات ارب رہ گیا ہے جس کو جلد پورا کر لیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے تو سٹیٹس کو کو ختم کرنا ہو گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’توانائی بحران کو ختم کرنے کے لیے آئی پی پیز کا سٹکچرل حل تلاش کرنا ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’توانائی بحران، ہائی انٹرسٹ ریٹس اور ٹیکسیشن کے مسائل کاسامنا ہے، دونوں مسائل کو اکٹھے آگے لے کرجانا اور انہیں حل کرنا ہے کیوں کہ ہمیں ٹیرف اور سٹرکچرل مسائل کا سامنا ہے۔‘
پیٹرولیم کی قیمتوں پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ سے منسلک ہیں اس میں حکومت کا کوئی خاص کردار نہیں۔‘
وزیرخزانہ نے کہا کہ ’سعودی، چینی، اماراتی وزرائے خزانہ سے بات چیت چل رہی ہے، سعودی عرب، چین، یواےای ہماری مدد کر رہے ہیں، سعودی عرب، چین، یواے ای ہمارے پارٹنرز ہیں۔‘
ان کے بقول:’اس وقت کرنسی ریٹ اورزرمبادلہ کے ذخائرمیں استحکام ہے۔ بیرونی فنانسنگ سے متعلق شراکت داروں میں بات چیت جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مائیکرواکنامکس استحکام کے لیے آئی ایم ایف پروگرام لے رہےہیں، اگر ہم میکرواکنامک استحکام نہیں لاتے تو مسائل ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس اب مالیاتی گنجائش نہیں ہے، خلوص نیت کے ساتھ معاملات کو آگے لے کر جا رہے ہیں، ہمیں ملک میں بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری لانی ہے، اقدامات نہ اٹھائے توہم اگلے سال بھی اسی معاملے پر بات کر رہے ہوں گے۔‘