پاراچنار تنازعے پر ایران کا بیان غیر ضروری ہے: پاکستان

پاکستان کی ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ’پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے۔ ایران کا پاراچنار پر بیان غیر ضروری ہے۔‘

13 دسمبر، 2015 کی اس تصویر میں ضلع کرم کے شہر پاڑہ چنار کے سرکاری ہسپتال کا منظر(اے ایف پی/عرفان برکی)

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو کہا کہ پاراچنار میں حالیہ قبائلی کشیدگی کے حوالے سے ایران کا بیان غیر ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کی سرحد پر واقع ہے جہاں مقامی حکام اور سیاست دانوں کے مطابق دو خاندانوں کے درمیان زمین کا تنازع قبائل کے درمیان مسلح جھڑپوں کی وجہ بن گیا۔ حالیہ جھڑپوں میں 40 سے زائد اموات ہوئی ہیں جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔

اس حوالے سے جمعرات کو ایران کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ پاراچنار میں ہونے والے شدت پسند حملوں کی مذمت کرتا ہے جس میں متعدد اموات ہوئی ہیں۔

جس کے بعد پاکستان کی ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ’پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے۔ ایران کا پاراچنار پر بیان غیر ضروری ہے۔‘

ترجمان کا کہنا تھا کہ ایرانی بیان میں پاراچنار کی کشیدگی کا صرف ایک رخ دیکھا گیا ہے اور اس کی مکمل صورت حال کا احاطہ نہیں کرتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ وزارت داخلہ اس حوالے سے کام کر ہی ہے اور شیڈیول فور میں افراد کو شامل کرنا ایک قانون کے مطابق عمل ہے۔‘

کرم میں کیا تنازع ہے؟

صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں پولیس اور مقامی افراد کے مطابق زمین کے تنازعے پر دو گرہووں کے درمیان گذشتہ ہفتے ’فائر بندی‘ پر اتفاق ہو گیا تھا تاہم 29 جولائی کو بعض علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جبکہ انٹرنیٹ سروس بند رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضلع کرم کے صدر مقام پارا چنار کا نواحی علاقہ بوشہرہ بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جس پر تنازعے نے اب تک درجنوں افراد کی جان لے لی ہے۔

30 جریب یعنی اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے اور حکام کے مطابق یہاں شروع ہونے والا تصادم کرم ضلع کے مختلف علاقوں تک پھیل گیا ہے۔

اتوار کو حکام نے بتایا کہ پانچ روزہ تصادم کے بعد بوشہرہ میں فریقین کے درمیان اتوار کو فائر بندی پر اتفاق ہوا تھا اور مورچے خالی کروا کر وہاں پر پولیس، ایف سی اور فوج کے جوانوں کو تعینات کر دیا گیا۔

 اس سے قبل ضلع کرم میں 2007 میں شروع ہونے والا ایک بڑا تنازع کئی سالوں تک جاری رہا تھا اور 2011 میں قبائلی عمائدین کی جرگے کی مدد سے اسے ختم کر دیا گیا۔

گذشتہ سال ہی محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے کرم کے زمینی تنازعات پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ضلع کرم میں آٹھ مقامات پر زمینی تنازعات ہیں اور یہ تنازعات نئے نہیں بلکہ تقسیم ہند کے وقت سے موجود ہیں۔

ان تنازعات کے حل کے لیے ایک حکومتی کمیشن بھی بنایا گیا ہے لیکن علاقہ مکینوں کے مطابق کمیشن تنازعات کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے اور آئے روز اس طرح کی جھڑپیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان