مخصوص نشستوں پر اختلافی نوٹ لیگل فریم ورک پر بڑا سوال: عطا تارڑ

وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق اختلافی نوٹ سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آئین کے مخصوص نشستوں سے متعلق آرٹیکلز کو معطل کرنا پڑے گا؟

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ 24 مارچ 2024 کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بات کر رہے ہیں (فیس بک، عطا اللہ تارڑ)

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اتوار کو پریس کانفرنس میں کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججوں نے مخصوص نشستوں پر مختصر فیصلے کے حوالے سے اپنے اختلافی نوٹ میں اہم نکات اٹھائے ہیں اور اس کیس میں اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو درخواست گزار ہی نہیں تھی۔

انہوں نے اسلام آباد میں ہوئی پریس کانفرنس میں کہا کہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ 15 دن گزرنے کے باوجود نہیں آ سکا۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ عموماً فیصلہ سنائے جانے کے 15 دن کے اندر تفصیلی فیصلہ جاری ہو جاتا ہے۔ ’آئین کے کچھ آرٹیکلز مخصوص نشستوں سے متعلق ہیں، مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں ان آرٹیکلز سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا۔‘

’سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے اپنے اختلافی نوٹ میں آئینی اور قانونی نکات اٹھائے ہیں، یہ نکات لیگل فریم ورک پر بڑا سوالیہ نشان ہیں، ان کا جواب آنا ضروری ہے۔‘

وفاقی وزیر کے مطابق اختلافی نوٹ میں یہ بات بھی درج ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا اور آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہو گا۔

’تحریک انصاف عدلیہ کے سامنے درخواست گزار کی حیثیت سے موجود ہی نہیں تھی، لیکن ان کے 81 ممبران کو ریلیف دیا گیا اور وہ لوگ جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر آئے اور حلف اٹھا چکے تھے، ان کی رکنیت ختم کر دی گئی۔ ان کی رکنیت ختم کرنے سے پہلے جو مراحل طے ہوئے، وہ قانونی طور پر اپنی جگہ موجود ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے ممبران اگر ایوان میں سنی اتحاد کونسل سے اٹھ کر تحریک انصاف کی صفوں میں بیٹھیں گے تو یہ آرٹیکل 62(1)F کی خلاف ورزی ہوگی۔ 

انہوں نے کہا کہ اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔

انہوں نے کہا کہ اس پر آئین اور قانون واضح ہیں، آئین کے تحت ان سیاسی جماعتوں جو پارلیمان میں موجود ہیں، کو متناسب نمائندگی کے فارمولے کے تحت مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا، ان کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور تحریک انصاف کے سابقہ ممبران نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کرنا مناسب سمجھا جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے سوال کیا کہ جب ایک سیاسی جماعت کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تو انہیں مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟

وفاقی وزیر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے اپنے آئین میں لکھا ہے کہ کوئی اقلیتی رکن ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتا، اس طرح انہیں اقلیتی نشستیں بھی نہیں مل سکتیں۔

’اختلافی نوٹ سے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آئین کے مخصوص نشستوں سے متعلق آرٹیکلز کو معطل کرنا پڑے گا۔‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ تحریک انصاف کو اس کیس میں بن مانگے ریلیف دیا گیا، ان لوگوں کو ریلیف دیا گیا جو ریلیف مانگنے ہی نہیں آئے۔ 

انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر جو لوگ منتخب ہوئے، ان کی بھی حق تلفی ہوئی ہے، انہیں بھی سنا جانا چاہیے تھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے نظرثانی کی درخواست دی ہے لیکن تاحال اسے سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان