مخصوص نشستیں: عدالتی فیصلے پر عمل ہو گا یا ترمیمی ایکٹ پر؟

سپریم کورٹ لارجر بینچ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر دو ارکان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔‘

حکمران جماعت ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیمی قانون لانے کی تیاری کر رہی ہیں(تصویر: ریڈیو پاکستان)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بینچ کے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے فیصلے پر دو ارکان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔‘

دوسری جانب حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیمی قانون لانے کی تیاری کر رہی ہیں۔

قومی اسمبلی سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کی منظوری کے بعد سینیٹ کا اجلاس پیر کو ہو گا، سینیٹ سے بل کی منظوری کے بل دستخط کے لیے صدرِ پاکستان کو بھجوایا جائے گا اور اس طرح الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل قانون بن جائے گا۔

عمومی رائے یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں پیش کردہ الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے یا اس میں تاخیر کے لیے لایا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ان تمام قانونی نکات اور ممکنہ قانونی بحران پر مختلف ماہرین قانون سے بات چیت کی ہے۔

ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کی کیا اہمیت ہو گی؟

سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے اور الیکشن کمیشن میں نئی فہرستیں جمع کرانے کا کہا ہے جبکہ پارلیمنٹ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کر رہی ہے جس کے بعد نئی فہرستیں جمع نہیں کرائی جا سکیں گی۔

ایکٹ بننے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد مشکل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے متصادم ہیں۔

سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’معاملہ اب مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ آرٹیکل 189 کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بائنڈنگ جوڈیشل اداروں اور دیگر حکومتی اداروں پر تو ہے لیکن اس میں پارلیمنٹ کا ذکر نہیں ہے۔

’پارلیمنٹ اب جو یہ قانون بنا رہی ہے تو الیکشن کمیشن کے لیے بھی پیچیدہ ہو گا کہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرے یا نئے ترمیمی قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔

’ممکنہ طور پر معاملہ سپریم کورٹ کی طرف واپس جائے گا تاکہ فل کورٹ اس معاملے پر نظرثانی درخواست کو بھی مقرر کرے اور نیا ایکٹ بھی چیلینج ہو تو سپریم کورٹ تشریح کر سکتا ہے۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے پر اب پھر سے قانونی بحث کی ضرورت ہو گی تاکہ متصادم ہونے والی صورت حال سے نکلا جا سکے۔‘

بیرسٹر حارث عظمت نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اب آئین کی برتری ہو گی۔ آئین عمل درآمد کے لیے تین دن کا وقت دیتا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں 15 کا وقت دیا تھا یہ تو سپریم کورٹ نے آئین کو دوبارہ سے لکھ دیا ہے جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔

’لیکن سپریم کورٹ جب ایک فیصلہ دے دے چاہے وہ ٹھیک ہو یا غلط اس پر عمل درآمد کرنا پڑے گا۔‘

اگر پارلیمنٹ قانون بنا لیتی ہے تو پھر کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب بیرسٹر حارث عظمت نے کہا کہ ’جب قانون بن جائے گا تو وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے برتر ہو گا یہ سپریم کورٹ کے اپنے 1993 کے ایک فیصلے میں لکھا ہوا ہے کہ ایک بار اگر فیصلہ آ جائے اور اس کے بعد قانون بدل جائے تو فیصلہ پراثر نہیں رہے گا۔

’اس لیے اس فیصلے کی روشنی میں حکومت قانون بنا سکتی ہے اور الیکشن کمیشن یہی کہے گا کہ وہ فیصلے پر عمل کروا رہے تھے کہ اسی دوران نیا قانون آ گیا ہے۔

’کیونکہ سپریم کورٹ نے خود یہ کہہ رکھا ہے کہ فیصلے پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ آئے تو دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے جس کے لیے لارجر بینچ اس معاملے کو دیکھے گا۔‘

انہوں نے کہا ’اس لیے اب سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد آسان نہیں ہے۔‘

حکومت نے الیکشن ایکٹ میں کیا ترامیم کی ہے؟

الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل پارلیمانی کمیٹی سے مںظوری کے بعد پیر کے روز ایوان بالا سینیٹ کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل 30 جولائی کو مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے پیش کیا تھا جس میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 اور 104 میں ترامیم تجویز کی گئیں۔

الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66  میں ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ ’انتخابی نشان الاٹ کرنے سے قبل اگر کوئی امیدوار کسی سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی سے متعلق ریٹرننگ افسر کے سامنے بیان حلفی جمع نہیں کراتا تو اسے آزاد امیدوار تصور کیا جائے گا۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق ’اگر کوئی آزاد امیدوار بعد کے کسی مرحلے میں سیاسی وابستگی سے متعلق بیانِ حلفی جمع کراتا ہے کہ اس نے سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا تھا تب بھی اسے آزاد امیدوار ہی تصور کیا جائے گا۔‘

جبکہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 میں یہ ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ ’اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرانے میں ناکام رہتی ہے تو وہ یہ مدت گزر جانے کے بعد مخصوص نشستوں کے کوٹے کے لیے اہل نہیں ہو گی۔‘

مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی بینچ کا فیصلہ کیا تھا؟

پاکستان کی سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔

سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں مزید کہا کہ ’انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔‘

سپریم  کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا۔

ججوں کے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کیا کہا گیا؟

سپریم کورٹ کے دو ججوں نے اقلیتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتی کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔

’جبکہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔‘

دونوں ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا ہے کہ ’کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

’تحریک انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائی کورٹ میں فریق تھی جبکہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک بھی پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔‘

وزیراعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل نے اس تفصیلی اقلیتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے بیان دیا کہ ’سپریم کورٹ بنچ کے فاضل ججز کے اختلافی نوٹ نے اتحادی حکومت کے موقف پر مہر ثبت کر دی ہے۔

’عدالتیں ہمیشہ فرق اول یا فریق دوئم کو انصاف دیتی آئیں ہیں، تیسرے فرق کو ریلیف دینا قانون میں درج ہی نہیں ہے، فیصلے وہ ہی پائیدار ہوتے ہیں جو قانون کے عین مطابق ہوں۔‘

وزیر قانون عطا تارڑ نے بھی اس پر بریفنگ کرتے ہوئے کہا کہ ’مخصوص نشستوں میں آئین سے باہر جا کر فیصلہ لکھا گیا ہے اور وہ ریلیف دیا گیا ہے درخواست گزاروں نے مانگا ہی نہیں تھا۔‘

اتوار کو لاہور میں نیوز کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے اختلافی نوٹ میں اہم نکات اٹھائے، مخصوص نشستوں کے معاملے پر اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو درخواست گذار ہی نہیں تھی۔‘

جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پی ٹی آئی یا اس کے کسی رہنما نے آزاد رکن قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں کیا۔

’تاہم اس حقیقت کے پیش نظر درخواستیں انتخابی کارروائی کا تسلسل ہے اس لیے عدالت کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے۔

’جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لینے والے دن تک کوئی اور ڈیکلیریشن جمع نہیں کرایا وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل کر کے مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے۔‘

مزید کہا کہ ’ایسے امیدوار جنہوں نے 24 دسمبر 2023 تک کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی اور انہوں نے خود کو آزاد یا کسی دوسری جماعت کے ساتھ وابستگی کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوں گے۔‘

مسلم لیگ ن نے کی فیصلے کے خلاف اپیل

مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کے فیصلے کے خلاف  نظر ثانی درخواست میں سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست میں ایسی کوئی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی۔

’الیکشن کمیشن آف پاکستان، پشاور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے جو درخواست تھی اس میں صرف یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہے کہ نہیں۔

’سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی دو الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم نامے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دونوں جماعتوں کو ایک ہی تصور کر لیا، سپریم کورٹ نے کافی نکات کو سنا لیکن مختصر فیصلے میں کئی اہم نکات پر خاموشی ہے۔‘

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ درخواست کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

مخصوص نشستوں کا معاملہ

قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں۔ جن میں سے آٹھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہیں۔

آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہوئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ معطل کرنے کے بعد تعداد دوبارہ 208 ہو گئی ہے۔

جس کے باعث حکومت تو قائم رہے گی لیکن حکومت اب دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی ہے جو کسی بھی بل کی منظوری میں اہم ہے۔

سنی اتحاد کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے۔ جس میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔ 26 خیبر پختونخوا اسمبلی، 27 پنجاب اسمبلی اور دو سندھ اسمبلی سے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان