وہ پانچ حکمران جو مظاہروں کے بعد ملک سے فرار ہوئے

شیخ حسینہ اکیلی نہیں ہیں بلکہ تاریخ میں متعدد ایسے حکمرانوں کا ذکر ملتا ہے جو عوام کے احتجاج کی تاب نہ کر ملک سے رخصت ہونے پر مجبور ہوئے۔

بنگلہ دیش کی وزیرِ شیخ حسینہ گذشتہ روز عوامی دباؤ کے آگے جھکتے ہوئے ملک سے افراتفری کی حالت میں رخصت ہو کر پڑوسی ملک انڈیا چلی گئیں اور ان کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان لگ گیا ہے کہ وہ کہاں جائیں گی اور ان کی بقیہ زندگی کس صورتِ حال میں گزرے گی۔

حالیہ تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کوئی حکومتی سربراہ عوام کی طاقت کے نتیجے میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا ہو۔ ہمارے سامنے ایسے کئی واقعات موجود ہیں جن میں سے چند کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

 محمد رضا پہلوی (ایران)

محمد رضا پہلوی 1941 سے 1979 تک ایران کے آخری شاہ رہے جن کی حکومت کے خاتمے اور جلاوطنی نے نہ صرف ایران کی تاریخ کو بدل دیا بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

1978 کے اواخر میں ایران میں شاہ کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے۔ مظاہرین شاہ کی آمرانہ حکومت، ملکی معاملات میں مغرب کی مداخلت اور معاشی مسائل کے خلاف تھے۔

16 جنوری 1979 کو بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے محمد رضا پہلوی اپنی بیوی فرح پہلوی کے ہمراہ ایران سے مصر چلے گئے، جس کے بعد وہ 1980 میں اپنی موت تک مختلف ملکوں میں مقیم رہے۔

محمد رضا پہلوی کی جلاوطنی سے ایران نے ایک نئے دور کا آغاز کیا اور وہاں آنے والی انقلابی حکومت نے نہ صرف ملک کے سیاسی ڈھانچے کو بدل دیا بلکہ اس نے عالمی سیاست، خاص طور پر مغرب کے ساتھ ایران کے تعلقات پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔

 زین العابدین بن علی (تیونس)

زین العابدین بن علی 1987 سے 2011 تک تیونس کے صدر رہے۔ انہوں نے ایک آمرانہ نظام قائم کیا جس میں سیاسی مخالفت کو دبایا گیا اور میڈیا پر سخت پابندیاں لگائی گئیں۔

بن علی کے دور میں تیونس نے معاشی ترقی تو کی لیکن بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہوا۔ 2010 کے اواخر میں، ایک نوجوان سبزی فروش کی خودسوزی نے ملک بھر میں احتجاج کی لہر کو جنم دیا۔ یہ واقعہ ’عرب سپرنگ‘ کے نام سے مشہور ہے۔

14  جنوری 2011 کو بڑھتے ہوئے مظاہروں کے پیشِ نظر بن علی اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب فرار ہو گئے۔ ان کے فرار نے تیونس میں جمہوری تبدیلی کا راستہ ہموار کیا۔ بن علی 2019 میں سعودی عرب میں ہی انتقال کر گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 بلیز کومپاورے (برکینا فاسو)

بلیز کومپاورے 1987 میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں برکینا فاسو کے صدر بن گئے اور اگلے 27 سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔

کومپاورے نے ملک کا نام ’اپر ووٹا‘ سے بدل کر ’برکینا فاسو‘ رکھا، جس کا مطلب ہے ’ایماندار لوگوں کا ملک۔‘ ان کے دور میں برکینا فاسو نے معاشی ترقی دیکھی، لیکن غربت اور بے روزگاری بدستور بڑے مسائل رہیں۔

کومپاورے پر اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے، میڈیا پر پابندیاں اور رشتے داروں کو نوازنے کے الزامات لگتے رہے۔ بالآخر 2014 میں جب انہوں نے آئین میں ترمیم کر کے اپنی صدارتی مدت میں توسیع کی کوشش کی تو بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے شروع ہو گئے۔ اس دوران مظاہرین نے پارلیمان کی عمارت پر حملہ کیا اور اسے آگ لگا دی۔

بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے سامنے آخر کار31  اکتوبر 2014 کو کومپاورے نے استعفیٰ دے دیا اور اپنے خاندان کے ساتھ پہلے آئیوری کوسٹ فرار ہو گئے۔

ایوو مورالس (بولیویا)

بولیویا کے صدر ایوو مورالس کی 2006 سے 2019 تک حکومت کی۔ وہ ایک کسان تحریک کے رہنما تھے اور انہوں نے بولیویا کی غریب عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ ان کی حکومت نے اقتصادی ترقی کے مختلف منصوبے شروع کیے اور ملک میں غربت میں کمی لانے کے لیے مختلف اصلاحات کیں۔

ان کی اقتصادی پالیسیوں نے انہیں مقبول بنایا، مگر کچھ تنازعات اور الزامات بھی ان کے ساتھ وابستہ رہے۔

2019  کے انتخابات کے بعد، جب ان پر انتخابی دھاندلی کے الزامات لگے، تو بولیویا میں شدید احتجاج شروع ہو گیا۔ 10 نومبر 2019 کو مورالس نے ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے استعفیٰ دیا اور میکسیکو میں سیاسی پناہ لے لی۔

 گوٹابایا راجاپکسا (سری لنکا)

گوٹابایا راجاپکسا 2019 سے 2022 تک سری لنکا کے صدر رہے۔ وہ ایک سابق فوجی افسر تھے اور سری لنکن خانہ جنگی کے دوران دفاعی سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔

راجاپکسا کی صدارت کے دوران سری لنکا شدید معاشی بحران کا شکار ہوا۔ مہنگائی قابو سے باہر ہو گئی، خوراک اور ایندھن کی قلت پیدا ہو گئی، اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ عام ہو گئی۔ ان حالات نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا۔

جولائی 2022 میں مظاہرین نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا۔ راجاپکسا پہلے مالدیپ اور پھر سنگاپور فرار ہو گئے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مالی بدعنوانی کے الزامات ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا