کراچی کی ماہی گیر بستی ابراہیم حیدری کے قریب واقع بنگالی محلے کے رہائشی بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے باوجود اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے پریشان ہیں۔
ان میں سے ایک ارکان آباد کے بنگالی محلہ کے رہائشی 76 سالہ محمد فاروق ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد فاروق نے کہا: ’ڈھاکہ میں میرے بہن، بھائی، ایک بیٹی اور بیٹا ہیں۔ چند روز قبل جب بنگلہ دیش میں پرتشدد واقعات شروع ہوئے تو وہاں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا۔ اس لیے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔
’اب نیٹ ورک کھلا تو رابطہ ہوا۔ تاحال صورت حال خراب ہے۔ اس لیے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
’اب تو میرا دل کرتا ہے کہ میں ہمیشہ کے لیے بنگلہ دیش چلا جاؤں مگر سفری دستاویز نہ ہونے کے وجہ سے جا نہیں سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بنگلہ دیش میں چند روز قبل وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں ایک سو سے زائد افراد کی اموات ہوئیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔
حکومت نے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت بڑے شہروں میں دوبارہ کرفیو نافذ کرتے ہوئے ہوئے موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی تھی۔
پرتشدد مظاہروں میں شدت کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ مستعفی ہو کر انڈیا چلی گئیں تو فوج نے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کیا مگر مظاہرین نے نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ منتخب کیا گیا۔
’بنگلہ دیش جانے کے لیے خطیر رقم چاہیے‘
کراچی کے بنگالی محلے میں عمر رسیدہ نجمہ ڈھاکہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ کئی سال پہلی کراچی آگئیں۔ ان کی چار بہنوں کا انتقال ہوگیا، ان کے ایک بھائی اور دو بہنیں ڈھاکا میں رہتی ہیں۔ حالیہ فسادات کی خبر سن کر وہ روتی رہتیں ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے نجمہ نے کہا: ’مجھے جب بنگلہ دیش میں فسادات کا پتہ چلا تو یہ بات دل میں لگی اور میں میں بہت روئی۔
’اگر بنگلہ دیش نزدیک ہوتا تو اپنے بھائی اور بہنوں کی خیریت معلوم کرنے وہاں چلی جاتیں، مگر بنگلہ دیش بہت دور ہے اور وہاں جانے کے لیے خطیر رقم چاہیے جو میرے پاس نہیں ہے۔ میں دو بار ڈھاکہ گئی ہوں۔ تمنا ہے کہ زندگی میں ایک بار دوبارہ جاسکوں۔‘