صوبائی حکومت کا ’جینا حرام‘ کرنے کا کوئی ٹاسک نہیں ملا: فیصل کنڈی

انڈپینڈنٹ اردو کے دفتر کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بحثیت گورنر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق معاملات اور دیکھیں اور حکومت پر نظر رکھیں۔

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے سات اگست 2024 کو انڈپینڈنٹ اردو کے دفتر کے دوران خصوصی گفتگو کی

 صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر اور پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ انہیں صوبائی حکومت کا جینا حرام کرنے کا کوئی ٹاسک نہیں دیا گیا ہے تاہم کارکردگی پر سوالات اٹھانے کا انہیں حق ہے اور وہ اسے استعمال کرتے رہیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے دفتر کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بحثیت گورنر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق معاملات اور دیکھیں اور حکومت پر نظر رکھیں۔

صوبے میں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کی قیادت وزیر اعلی امین گنڈاپور کر رہے ہیں اور فیصل کریم کنڈی کے گورنر بننے کے بعد صوبے میں دو بڑے عہدوں کے درمیان بیانات کی جنگ میں بظاہر تیزی آئی ہے۔

’حلف لینے کے بعد کا میرا بیان دیکھ لیں اور بعد کے چند انٹرویو بھی میں نے ان میں صوبے کے حوالے سے بہت مثبت جذبات کا اظہار کیا تھا لیکن اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جانے لگا۔ مجھے صوبائی حکومت یا کسی شخصیت کا جینا حرام کرنے کا کوئی ٹاسک نہیں دیا گیا ہے۔ جب مجھ سے سوال ہوں گے تو میں جواب تو دو گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ سے کویی سوال بھی کر لوں۔‘

 ان سے پوچھا کہ گورنر خیبرپختونخوا کتنا مشکل یا آسان عہدہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ مشکلات ہیں لیکن کم ہیں۔ ’ڈپٹی سپیکر اب تک کا سب سے اہم عہدہ تھا وہ بھی کوئی آسان نہیں تھا۔ اب گورنر کے طور پر بھی اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔ میں چیزوں کو اپنے ذہن پر سوار نہیں کرتا۔‘

تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ چند چیلنج صرور ہیں صوبے میں۔ ’ان چیلنجوں کو قبول کیا ہے اور پورا کریں گے۔‘

فیصل کریم کنڈی کا تعلق خیبر پختونخوا کے ایک معروف سیاسی گھرانے سے ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 2003 میں کیا اور پہلے پیپلز پارٹی کے ڈویژنل کوآرڈینیٹر ڈی آئی خان ڈویژن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

پہلے دن سے اسی جماعت کے ساتھ جڑے رہے۔ درمیان میں تبدیلی کے بارے میں سوچا لیکن پھر پیپلز پارٹی کو ہی ترجیع دی۔

1975 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے اور برطانیہ سے گریجویشن کیا۔ ان کا سیاست کی طرف گہرا جھکاؤ تھا اور لندن میں قیام کے دوران بےنظیر بھٹو سے تربیت شروع ہوئی۔ انہوں نے فروری 2008 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی سے انتخاب لڑا اور بدھ 19 مارچ 2008 کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے 17 ویں ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔

انہیں اب تک منتخب ہونے والے ڈپٹی سپیکرز میں سے سب سے کم عمر 33 سالہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گورنر سے پوچھا کہ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے نذدیک کیا ہے تو ان کا کچھ زیادہ سوچے بغیر جواب تھا امن و امان۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس مسئلہ پر میری خاموشی مجرمانہ ہوگی۔ میرے اور وزیر اعلی کے حلقے میں جج اغوا ہو رہے ہیں، سکیورٹی فورسز کے سپاہی شہید ہو رہے ہیں اور نہ تو صوبے میں کوئی کابینہ کا ہنگامی اجلاس ہوتا ہے اور نہ ایپکس کمیٹی کا۔‘

شدت پسندی کتنی تشویش ناک حد تک پہنچی ہے اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے قدرے پرامن صوبہ تحریک انصاف کو دیا تھا۔ تب سے یہ حکومت میں ہیں لیکن حالات بہتر نہیں ہوئے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جہاں رقم خرچ کی جانی چاہیے وہاں نہیں کی جا رہی ہے۔

وزیراعلی کہتے ہیں کوئی آپریشن نہیں ہوگا لیکن قانون نافذ کرنے والے دن میں تین تین کر رہے ہیں، اس بارے میں گورنر کے پی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی کا کردار اسلام آباد میں ایپکس کمیٹی میں شرکت کے وقت سے مبہم ہے۔ ’وہ اندر ایک اور باہر دوسری بات کرتے ہیں۔‘

فیصل کریم کنڈی نے سوال کیا کہ کیا وزیر اعلی یا اعلی اہلکار جنوبی اضلاع گیا اور مقامی لوگوں سے بات کی۔ ’بنوں اور پارہ چنار میں یہیں کیا۔ مقامی لوگوں نے مداخلت کی اور امد قائم کیا۔‘

ان سے دریافت کیا کہ وزیر اعلٰی کہہ چکے ہیں کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اسلام آباد میں جلسہ کریں گے اور اگر وہ یہاں آتے ہیں تو ایسی صورت میں آپ کا کیا کردار ہو گا؟ فیصل کنڈی کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج ہر سکی کا حق ہے۔ ’اگر وہ کسی رہنما کور جیل سے نکالنے یا توڑ پھوڑ کے لیے آتے ہیں تو اس کی اجازت کوئی نہیں دے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ صوبے میں 15 برس سے فرسٹ کلاس کرکٹ کے نہ ہونے پر تشویش میں ہیں۔ اس سلسلے اور ارباب نیاز سٹیڈیم میں کرکٹ کے انقعاد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کھیل کے میدان کا دورہ کیا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ محسن نقوی سے بھی بات کی اور انہیں امید ہے کہ کچھ پیش رفت ہوگی۔

آخری سوال ان سے یہ تھا کہ بحثیت گورنر کیا لیگسی چھوڑ کر جانا پسند کریں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ صوبے کی شبیہ بہتر کی جائے، نوجوانوں کے مسائل حل ہوں، امن بحال ہو اور سیاحت کو فروغ ملے۔ ’گورنر ہاؤس پشاور ایسی سرگرمیوں کے لیے دستیاب ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست