تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی: برطانوی وزیراعظم

برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے جمعے کو متنبہ کیا ہے کہ برطانوی حکام کو آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں ’ہائی الرٹ‘ رہنا چاہئے کیونکہ برطانیہ کے قصبوں اور شہروں میں مزید دائیں بازو کے فسادات کا خدشہ ہے۔

نو اگست، 2024 کی اس تصویر میں برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر لندن میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے دورے کے دوران پولیس اہلکاروں سے بات کر رہے ہیں(اے ایف پی)

برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے ایک ہفتے سے جاری فسادات کے بعد جمعے کو متنبہ کیا ہے کہ ’یہ ہر کسی کے لیے یاد دہانی ہے کہ چاہے آپ ان فسادات میں براہ راست ملوث ہوں یا آپ دور سے ملوث ہوں، آپ قصوروار ہیں۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں چاقو کے حملے میں تین بچیوں کی اموات کے بعد ایک ہفتے سے زائد عرصے تک مختلف مقامات پر روزانہ کی بنیاد پر بدامنی جاری رہی، تاہم گذشتہ کچھ راتیں کافی حد تک پرسکون رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برطانوی حکام کو آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں ’ہائی الرٹ‘ رہنا چاہئے کیونکہ برطانیہ کے قصبوں اور شہروں میں مزید دائیں بازو کے فسادات کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب برطانیہ کے شہر لیڈز کی ایک عدالت نے پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے پر دو ایشیائی نژاد افراد کو بھی سزا سنا دی ہے جبکہ پولیس کے مطابق حالیہ فسادات میں ممکنہ طور پر ملوث 500 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

اس کے باوجود شمالی آئرلینڈ میں بدامنی کا سلسلہ جاری ہے جہاں مقامی پولیس نے برطانیہ نواز نیم فوجی دستوں کو بیلفاسٹ میں رات کے وقت تشدد کو ہوا دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

جمعے کو لندن میں میٹرو پولیٹن پولیس ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران کیئر سٹارمر نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پولیس اور عدالتوں کی جانب سے فسادیوں کو دیے گئے ’فوری انصاف‘ نے انگلینڈ میں مزید بدنظمی کو روکنے میں کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے برطانوی نشریاتی اداروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے پورا یقین ہے کہ گذشتہ چند دنوں میں پولیس افسران کی موجودگی اور ہماری عدالتوں میں جو فوری انصاف فراہم کیا گیا ہے اس کا حقیقی اثر پڑا ہے۔

’لیکن ہمیں اس ہفتے کے آخر میں ہائی الرٹ رہنا ہو گا کیونکہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہماری برادریاں محفوظ اور پرسکون رہیں۔‘

اس سے قبل انہوں نے جمعرات کی رات اہم وزرا اور پولیس سربراہوں کا ایک اور ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا تھا۔

اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے کہا کہ فٹ بال سیزن کے آغاز سے منسلک ممکنہ بدامنی کو اس ہفتے کے آخر تک حکام کو پیش آنے والے چیلنجوں کے فہرست میں شامل کیا جائے گا۔

کچھ انتہائی دائیں بازو کے فسادیوں اور مظاہرین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق انگلینڈ میں دہائیوں پرانے فٹ بال سے جڑے پرتشدد واقعات سے ہے، جو 1980 کی دہائی میں اپنے عروج کے بعد سے کم ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی میچ کے دنوں میں پرتشدد واقعات پیش آ سکتے ہیں۔

انگلینڈ کی پولیس نے جمعرات کو کہا تھا کہ ملک بھر میں فورسز نے 30 جولائی سے شروع ہونے والی بدامنی میں مبینہ طور پر حصہ لینے کے الزام میں تقریباً 500 افراد کو گرفتار کیا ہے اور تقریباً 150 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

 29 جولائی کو چاقو کے حملے میں تین بچیوں کی اموات کے بعد شروع ہونے والے ان فسادات میں پولیس اور دیگر اہداف کے ساتھ ساتھ مساجد اور تارکین وطن سے تعلق رکھنے والی عمارتوں پر بھی حملے کیے گئے۔

برطانوی حکام اس واقعے میں ملوث مجرم کے بارے میں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کو بدامنی کو ہوا دینے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

ادھر انگلینڈ بھر کی عدالتوں نے اس بدامنی میں ملوث مجرموں کو سزائیں سنانا شروع کردی ہیں، جن میں سے کچھ کو کئی سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جمعرات کو تقریباً ایک درجن لوگوں کو ان فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا جبکہ جمعے کو مزید دو افراد کو آن لائن نسلی منافرت پھیلانے کے الزام میں جیل کا سامنا ہے۔

برطانوی وزیراعظم کا ان مقدمات کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’یہ ہر کسی کے لیے یاد دہانی ہے کہ چاہے آپ براہ راست ملوث ہوں یا آپ دور سے ملوث ہوں، آپ قصوروار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا ایگزیکٹوز کے ساتھ ساتھ صارفین کو ’پہلی ترجیح کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے، جو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہماری برادریاں محفوظ اور پرسکون ہیں۔‘

سٹارمر نے کہا کہ ’ہمیں اس بدامنی کے بعد سوشل میڈیا پر زیادہ وسیع پیمانے پر غور کرنا ہوگا لیکن اس وقت توجہ اس خرابی سے نمٹنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔‘

شمالی آئرلینڈ میں بیلفاسٹ کے متعدد کاروباری اداروں اور لائبریریوں نے رات بھر مزید بدنظمی اور مزید مظاہروں کے بعد جمعے کو کاروبار جلد بند کرنے کا اعلان کیا۔

پولیس نے بتایا کہ ’ہنگامہ آرائی کے بعد اب تک 23 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور 15 پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔‘

اطلاعات کے مطابق: ’حکام کو مشتبہ مسائل پیدا کرنے والوں کو روکنے اور ان کی تلاشی لینے کے لیے اضافی اختیارات دیے گئے ہیں اور ان سے چہرے کو ڈھانپنے والے کپڑے ہٹانے کے لیے کہا گیا ہے جبکہ برطانیہ سے اضافی افرادی قوت بھیجی جا رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جریدے دی انڈپینڈنٹ کے مطابق حالیہ فسادات کے دوران کیمروں کے ذریعے پکڑے جانے والے افراد کے علاوہ آن لائن تشدد بھڑکانے والوں کو بھی قانون کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لیڈز شہر کے مرکز میں ہفتے کو مظاہروں کے بعد دائیں بازو کی تنظیم ’ای ڈی ایل کے حامی‘ مظاہرین پر حملہ کرنے کے الزام میں دو افراد کو بھی جیل بھیج دیا گیا ہے۔

لیڈز کراؤن کورٹ کو سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی جس میں ایشیائی مردوں کے ایک گروپ کو چار سفید فام افراد کے ایک چھوٹے گروپ کو لاتیں مارتے اور چھرے مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جن میں سے ایک یونین کے جھنڈے میں لپٹا ہوا تھا اور یونین کے پرچم کا ماسک پہنا ہوا تھا۔

لیڈز کے علاقے ویسٹ پارک ڈرائیو سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ سمیر علی اور لیڈز کے سپین بینک کے 31 سالہ عدنان غفور نے رواں ہفتے کے اوائل میں اس جھگڑے میں ملوث ہونے کی تصدیق کی۔

جمعے کو سمیر علی کو 20 ماہ اور عدنان غفور کو 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی جبکہ عدنان غفور کو معطل سزا کی خلاف ورزی پر مزید 12 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

سمیر علی کی قانونی نمائندگی کرنے والے گراہم او سلیون نے کہا کہ ان کے موکل کو سفید فام افراد کے گروپ کی جانب سے ’اسلاموفوبیا پر مبنی دھمکیوں اور بدسلوکی‘ سے اکسایا گیا تھا۔

لیڈز کے جج گائے کیرل کے سی نے ان دونوں ایشیائی نژاد افراد کو جیل بھیجتے ہوئے کہا: ’یہ ایک گروپ کا حملہ تھا جس میں 10 سے زیادہ افراد شامل تھے جس میں سے ہر ایک نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ