پاکستان کی سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے ہفتے کو کہا ہے کہ ’یہ نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہو۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا ہے۔‘
اسلام آباد میں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں درپیش مشکلات سے نمٹنے سے متعلق سمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے دیکھا کہ 2014 کے فیصلے پر اب عمل ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کا معاملہ ججز کمیٹی میں اٹھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میرے دوست ہیں اور وہ چیف جسٹس پاکستان ہیں۔ میں سینئر ترین جج ہی ٹھیک ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تندرست اور توانا ہیں۔ اللہ پاک ان کو صحت دے، میں قائم مقام چیف جسٹس نہیں۔ سینئر ترین جج ہوں۔‘
انہوں نے کہ ’ایسا نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ اپنا اختیار آئین سے لیتی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم توازن برقرار رکھیں۔ اگر فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ کر دیا تو اس پر عمل ہوگا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ نے میرا کچھ اور تعارف کروایا، میں سینیئر جج ہی ٹھیک ہوں۔ سپریم کورٹ کو اتھارٹی کہیں اور سے نہیں آئین سے حاصل ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر اس طرف چل پڑے کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں ہو سکتا تو آئینی توازن بگڑ جائے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کرنا روایت نہیں لازمی آئینی تقاضہ ہے۔ اگر کوئی نیا نظام بنانا چاہتے ہیں تو بنا لیں۔ معاملات اس طرح نہیں چلیں گے۔‘
جسٹس منصور نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد آئین کا حکم ہے۔ عمل درآمد کرنے میں تاخیر سے سارا لیگل سسٹم متاثر ہو گا۔
’ہم 96 فیصد اکثریت کو آپس میں گفتگو کرنی چاہیے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اقلیتی حقوق کا تحفظ کیسے کرنا ہے، عدالتی حکم پر عمل کرنا آئینی ذمے داری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کسی کا اختیار نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرے۔ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ انتظامیہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرے۔‘