پی ٹی آئی کے عہدیدار اچانک مستعفی کیوں ہو رہے ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخواہ کے صوبائی وزیر سی اینڈ ڈبلیو شکیل خان اپنی وزارت سے مستعفی ہو گئے دوسری جانب پنجاب میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے تنظیمی عہدیدار اپنے عہدوں سے استعفےٰ دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔

11 جون، 2019 کی اس تصویر میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے(اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر سی اینڈ ڈبلیو شکیل خان اپنی وزارت سے مستعفی ہو گئے دوسری جانب پنجاب میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے تنظیمی عہدیدار اپنے عہدوں سے استعفےٰ دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر نے گذشتہ روز ایکس پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان تک رسائی نہیں اور ان کے اختیارات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔

تاہم پارٹی سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے ان کا استعفیٰ مسترد کرتے ہوئے کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تو حماد اظہر نے اپنا فیصلہ واپس لینے سے انکار کر دیا۔

تحریک انصاف لاہور کے صدر اصغر گجر سمیت تمام عہدیداروں کے مستعفی ہونے پر نئے صدر کا نوٹیفکیشن بھی کردیا گیا ہے۔

جبکہ پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر حافظ فرحت کے استعفےٰ پر ان کی جگہ بھی نئے پارلیمانی لیڈر کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے۔

گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پی ٹی آئی عہدیداروں کے اچانک مستعفیٰ ہونے پر کئی سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔

تجزیہ کار وجاہت مسعود کے مطابق ’پی ٹی آئی کا تعلق جب سے طاقتور حلقوں سے ٹوٹا ہے کئی رہنما پہلے اس کشتی سے اتر گئے اور کئی اب بہانے بنا کر اترتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ طاقت کے کھیل میں ایسی روایت بہت پرانی ہیں۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول: ’جنرل فیض حمید سمیت دیگر ریٹائرڈ افسران کے کورٹ مارشل سے پی ٹی آئی رہنماوں پر نفسیاتی دباو بڑھ رہا ہے۔ اس لیے جو استعفے آئے وہ تو کم ہیں، ابھی مرکزی سطح پر بڑے رہنما بھی کنارہ کشی کرتے نظر آئیں گے۔‘

تاہم تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جماعتوں میں رہنماوں کی شکایات معمول کا حصہ ہوتی ہیں لہذا ہماری پارٹی کے عہدیداروں نے بھی اپنے تحفظات دور کرنے کے لیے استعفوں کی راہ اپنائی۔

’ہماری قیادت ان کی شکایات دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خان صاحب سے مشاورت کے بعد کئی عہدیداروں کے تحفظات دور کر دیے گئے مزید ابھی بات چیت جاری ہے۔‘

مستعفی عہدیداروں کی شکایات

خیبر پختونخوا حکومت کے مستعفی ہونے والے صوبائی وزیر سی اینڈ ڈبلیو شکیل خان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’صوبائی حکومت میں جاری انتہائی کرپشن کے ساتھ مزید نہیں چل سکتا۔ کرپٹ لابیز اتنی مضبوط ہیں کہ میں استعفیٰ دینے پر مجبور ہوا۔ کابینہ سے استعفیٰ دینے کی وجوہات ایوان میں بیان کروں گا۔‘

ان کے استعفے پر پر صوبائی حکومت کی جانب سے جاری وضاحت میں کہا گیا ہے کہ ’بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کردی تھی۔ جس پر وزیر اعلیٰ کے پی نے صوبائی وزیر کو وزارت سے ہٹانے کی سمری پہلے ہی گورنر کو ارسال کر دی ہے۔‘

ادھر پی ٹی آئی پنجاب کے مستعفی ہونے والے صدر حماد اظہر نے جمعرات کی شام اپنے ایکس اکاونٹ سے پوسٹ کی جس میں کہا گیا کہ ’بدقسمتی سے میری عمران خان صاحب تک رسائی نہیں ہے۔ میں نے پریس کانفرنس نہیں کی اور نہ ہی کوئی ڈیل کی لہذا میری نقل و حرکت پر بہت سختی ہے اور میں اڈیالہ نہیں جا سکتا۔‘

حماد اظہر کے مطابق: ’پنجاب کی تنظیم میں بہت سارے ایسے فیصلے ہوئے جن پر نہ تو میری رائے شامل تھی اور نہ ہی رضامندی۔ ان میں اکثر فیصلے ایسے بھی تھے جن پر میرٹ کی بجائے لابنگ اور عمران خان تک محدود رسائی اور یک طرفہ معلومات پہنجائی گئیں۔‘

حماد اظہر نے کہا کہ ’میں ایسی صورت حال میں آج سے پنجاب کی صدارت کا چارج چھوڑ رہا ہوں۔ عمران خان کا ایک کارکن تھا اور رہوں گا۔‘

اس سے قبل پی ٹی آئی لاہور کی پوری تنظیم بھی تحلیل کی جا چکی ہے۔

عمر ایوب نے لاہور کے لیے نئے صدر امتیاز شیخ کا نوٹیفکیشن آ جمعے کو جاری کر دیا ہے۔

 جبکہ پنجاب اسمبلی میں پارٹی پارلیمانی لیڈر حافظ فرحت کا استعفیٰ منظور کر کے علی امتیاز وڑائج کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔

تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری عمر ایوب نے ایکس پر ہی حماد اظہر کا استعفی مسترد کرتے ہوئے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔

 جبکہ حماد اظہر نے ان کی پوسٹ کے جواب میں شکریے کے ساتھ انکار کرتے ہوئے اپنے فیصلے پر برقرار رہنے کا اعلان کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے نئے صدر امتیاز علی شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب اصغر گجر کو لاہور کا صدر بنایا گیا اس وقت بھی عمران خان نے میرے نام کی منظوری دی تھی۔

’لیکن مجھے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اب بھی عمران خان کی ہدایت پر مجھے لاہور کا صدر بنایا گیا جبکہ علی امتیاز وڑائچ کو پارلیمانی لیڈر بنایا گیا ہے۔‘

سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صوبائی وزیر شکیل خان کو کمیٹی کی سفارشات پر کرپشن کے الزامات پر ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن انہوں نے پہلے ہی استعفی دے دیا۔

’حماد اظہر کے تحفظات دور کیے جا رہے ہیں، سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے ان کا استعفیٗ منظور نہیں کیا اس کے علاوہ انتظامی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

’استعفے دینا یا نئے عہدیدار مقرر کرنا ہر سیاسی جماعت کا اختیار ہے وہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہماری پارٹی موجودہ قیادت کی سربراہی میں متحد ہے اور پہلے کی طرح فعال ہے۔‘

استعفوں کی وجہ اختلافات یا کچھ اور؟

تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں سیاست کا کھیل طاقت کے کندھوں پر ہوتا ہے۔

’جب ہ کندھا ہٹ جائے تو مشکل میں آنے والی جماعتوں کے عہدیدار ایسے ہی بہانے بنا کر راہیں جدا کر لیتے ہیں، جیسے پی ٹی آئی کے رہنما کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب تحریک انصاف کو طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل تھی تو سیاسی پرندے ان کے بنیر پر بیٹھنے کو بے تاب تھے۔ کئی سیاستدان مشکلات کا شکار ن لیگ اور پی پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی کےساتھ مل رہے تھے۔

 ’اب تحریک انصاف مشکلات کا شکار ہے تو اسے چھوڑ کر دوبارہ طاقتور حلقوں کی حمایت یافتہ ن لیگ اور پی پی پی میں شامل ہونے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ حماد اظہر کئی بار جلسوں میں نمودار ہوئے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے حالات میں آزادی طاقتور حلقوں کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتی۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول: ’ویسے تو تحریک انصاف میں شامل کرائے گئے رہنما حکومت سے ہٹتے ہی ساتھ چھوڑنا شروع ہو گئے تھے۔

’مگر جب سے جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل شروع ہونے کا فوجی ترجمان نے اعلان کیا ہے، اس کے بعد پی ٹی آئی کے بڑے بڑے رہنما بھی نفسیاتی طور پر شدید دباو کا شکار ہوگئے۔‘

سلمان غنی نے کہا کہ ’ابھی تو جو رہنما مستعفی ہو رہے ہیں ان کی تعداد کچھ نہیں۔ آنے والے دنوں میں مزید بڑے بڑے رہنما پارٹی سے کنارہ کرتے دکھائی دیں گے۔

’کیونکہ جس طرح جیل میں بانی پی ٹی آئی سے فیض حمید نیٹ ورک کے رابطوں کا نیٹ ورک پکڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کے کئی اہم عہدیدار بھی پکڑ میں آ سکتے ہیں۔

’لہذا اس دباو کو برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ پارٹیاں چھوڑتے ہوئے ہر عہدیدار بہانے پیش کرتا ہے یہ بھی وہی کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست