صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی سینٹرل جیل کی فیکٹری میں قیدی صبح نو سے شام چار بجے تک عروسی لباس تیار کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ قیدی سلمہ ستارہ، چارسدہ چپل، کلچرل ٹوپی، چارسدہ گرم کھدر کپڑا اور چمڑے کے پرس جیسی مختلف مصنوعات تیار کرتے ہیں، جس کا مقصد نہ صرف قیدیوں کو مصروف رکھنا ہے بلکہ انہیں ہنرمند بنانا بھی ہے تاکہ رہا ہونے کے بعد وہ اچھا روزگار کما سکیں۔
قیدیوں کو اپنے بنائے گئے ہر سوٹ کی کمائی کا 30 فیصد منافع ملتا ہے۔
یہاں کام کرنے والے ایک قیدی ساجد علی نے بتایا کہ پہلے وہ بیرک میں فارغ رہ کر الٹا سیدھا سوچتے تھے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا، مگر جیل انتظامیہ نے قیدیوں کی اصلاح کے لیے یہ کام شروع کیا ہے۔
’ہم یہاں کام سیکھ رہے ہیں اور باقی قیدیوں کو بھی سکھا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کام سے کچھ پیسے کما لیتے ہیں جبکہ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا۔
ساجد کے مطابق فیکٹری میں 90 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک مالیت کا عروسی لباس بن جاتا ہے جبکہ اسی معیار کے لباس کی بازار میں قیمت دو سے ڈھائی لاکھ روپے تک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیل میں تیار ملبوسات پر زیادہ منافع نہیں رکھا جاتا۔
سلمہ ستارہ کا کام کرنے والے ایک اور قیدی تحسین اللہ نے بتایا کہ انہیں کافی اچھا لگ رہا ہے۔ ’ہمیں پیسے مل رہے ہیں اور جیل میں وقت بھی گزر رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینٹرل جیل پشاور میں فیکٹری انچارج کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے والے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ انیس خان نے بتایا کہ فیکٹری کے ایمبرائیڈری سیکٹر میں سلمہ ستارے کا کام بہت اچھا چل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری کو باہر سے آرڈر مل رہے ہیں اور وہ ان آرڈرز پر کام کرتے ہوئے معیار کو یقینی بناتے ہیں۔
’ایمبرائیڈری سیکٹر میں بہت نفاست سے کام ہوتا ہے۔ کام کی خوبصورتی اور عمدگی کی وجہ سے ہمیں زیادہ تر شادی کے ملبوسات کے آرڈر ملتے ہیں جو مکمل طورپر ہاتھوں سے بنائے جاتے ہیں۔‘
انیس خان کے مطابق پروگرام کا بنیادی مقصد قیدیوں کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ جیل سے ہنر سیکھ کر معاشرے میں باعزت طریقے سے چل سکیں۔
’ہم نے قیدیوں کے 20 بینک اکاؤنٹ کھلوائے ہیں، جبکہ 25 اکاؤنٹس کھلنے کا عمل جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو شفاف طریقے سے ان کی کمائی کا طے شدہ حصہ منتقل کیا جاتا ہے جبکہ باقی پیسے جیل کے بہبود فنڈز میں جمع ہو جاتے ہیں۔