کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن سے تعلق رکھنے والی نوجوان باکسر عائشہ بلوچ چند روز پہلے تک کک باکسنگ کے ایران میں عالمی مقابلے میں شرکت سے ناامید تھیں پھر انڈپینڈنٹ اردو میں ان کی خبر چلی اور رقم کا بندوبست مخیر افراد کی جانب سے ہو گیا۔
عائشہ نے فنڈنگ مل جانے کے بعد کے لیے تیاری مکمل کر لی ہے اور فنڈنگ سے متعلق خبر شائع کرنے پر انڈپینڈنٹ اردو کا شکریہ ادا کیا ہے۔
فقیر کالونی میں واقع نصرت بھٹو باکسنگ کلب کی ممبر اور نوجوان پاکستانی باکسر عائشہ بلوچ ایران کے شہر مشہد میں 28 اگست سے ہونے والے کک باکسنگ کے عالمی مقابلے ’تائیوان باکسنگ چیمپین شپ‘ میں شرکت کریں گی۔
عائشہ بلوچ پرعزم ہیں کہ وہ عالمی مقابلے میں پاکستان کے لیے میڈیل جیت کر آئیں گی۔
’تائیوان باکسنگ چیمپین شپ‘ ایران کے دارالحکومت تہران میں اگست کے پہلے ہفتے میں شروع ہونی تھی مگر فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کے بعد یہ مقابلہ موخر کر دیا گیا تھا جو اب مشہد میں 28 اگست سے شروع ہو گا۔
’تائیوان باکسنگ چیمپین شپ‘ میں شرکت کے لیے عائشہ بلوچ دو مہینے قبل منتخب ہوئیں تھیں مگر ایران میں سفری رہائشی اخراجات نہ ہونے کے سبب ان کی اس مقابلے میں شرکت کے امکانات کم تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو کرتے ہوئے عائشہ بلوچ نے کہا کہ ’اس مقابلے میں شرکت کے لیے تقریباً 80 ہزار روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔ میری والدہ ایک نجی کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ ان کے لیے اتنی رقم کا بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا۔
’مگر انہوں نے بمشکل 40 ہزار روپے کا بندوبست کیا تھا۔ مگر اس رقم سے میرا ایران جاکر مقابلے میں حصہ لینا ممکن نہیں تھا۔ ایک وقت آیا کہ میں بالکل مایوس ہوگئی تھی اور مجھے لگا کہ میں اب عالمی مقابلے میں حصہ نہیں لے سکتی۔
’اس دوران انڈپینڈنٹ اردو نے میری ایک ویڈیو سٹوری کی۔ اس ویڈیو میں میں نے اپیل کی کہ میری مدد کی جائے۔ اس ویڈیو کی اشاعت کے بعد منصور خواجہ نے رابطہ کرکے مجھ سے معلومات لیں اور بعد میں انہوں نے مجھے 50 ہزار روپے بھیجے۔
’اس رقم ملنے کے بعد میں نے تمام سفری اخراجات اور ایران میں قیام اور طعام کا بندوبست کرلیا ہے۔ میں کچھ ہی دنوں میں ایران جاؤں گی اور پاکستان کے لیے میڈل لے کر آؤں گی۔
’میری اپیل والی ویڈیو چلانے پر میں انڈپینڈنٹ اردو کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔‘
عائشہ نے بتایا کہ عالمی مقابلے کے لیے سیکڑوں نوجوانوں نے بھرپور کوشش کی ہے مگر اس میں صرف سات نوجوان ہی سلیکٹ ہو پائے، جن میں وہ بھی ایک ہیں۔
’اگر میری مالی مدد نہ ہوتی تو میں جا نہیں سکتیں تھیں اور یہ دکھ ساری عمر رہتا۔‘