پاکستان کے ہر بازار، ہر شہر، گاؤں، قصبے اور چوک پر بھیک مانگنے کا عمل جاری ہے۔
کچھ بھکاری بوڑھے اور بیمار ہیں، لیکن ان میں سے اکثر نوجوان بچے ہیں، جن کے ہاتھوں میں کوئی شے ’بیچنے‘ کے لیے بھی ہوتی ہے اور انتظار کرتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان تیزی سے چلتے ہیں۔
پاکستان میں بھیک مانگنا 1958 کے ویگرنسی آرڈیننس کے تحت غیر قانونی ہے، جس کے تحت بھکاریوں یا بچوں کے والدین کو تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی بھی اس قانون کی پرواہ نہیں کرتا۔
سات نومبر 2023 کے ڈان اخبار کے اداریے کے مطابق، ’پاکستان میں لاکھوں افراد نے بھیک مانگنا اپنی آمدنی کا واحد ذریعہ بنا لیا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے پیچیدہ نیٹ ورک بنائے ہیں جو جغرافیائی حدود سے آگے نکل چکے ہیں۔‘
شہری مراکز میں، جہاں بھیک مانگنا زیادہ منافع بخش ہے، انفرادی طور پر بھیک مانگنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ شہر کے مراکز اور چوکوں کو منظم مافیا نما نظام کے ذریعے طاقتور سرغنہ چلاتے ہیں۔
میری اپنی تحقیقات سے پتہ چلا کہ اگر بھکاریوں کو کبھی گرفتار کیا جائے تو ان کے پاس مستقل وکیل ہوتے ہیں جو انہیں پولیس کی حراست سے ایک ماہانہ فیس کے عوض چھڑوا لیتے ہیں۔
کچھ بھکاری، جو خاندانوں کے ساتھ بھیک مانگتے ہیں، روزانہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور اپنے سرغنہ کو دن کے اختتام پر تمام رقم دیتے ہیں۔
ظاہر اور واضح معاشرتی گراوٹ کے علاوہ، بھکاریوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی مافیاؤں کو عزت نفس کا کوئی خیال نہیں ہے۔
بھیک مانگنا اب پیشہ بن چکا ہے۔ کچھ علاقوں میں، پورے قبائل اور ذیلی ذاتوں نے اسے بطور کاروبار اپنا لیا ہے اور ان میں سے کئی ساہوکار بن چکے ہیں، جو لوگوں کو قرض پر رقم دیتے ہیں۔
گداگری اب بڑی حد تک پھلتی پھولتی ہوئی بین الاقوامی تجارت بن گئی ہے، جس میں پاکستانی بھکاری خطے میں، ایران سے لے کر سعودی عرب تک پھیل چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ایک نیا رجحان ہے لیکن اتنا بھی نیا نہیں۔ پاکستانی بھکاری گروہوں کی صورت میں مشرق وسطیٰ جانے کے لیے ہوائی جہازوں میں سوار ہو رہے ہیں۔ ان ملکوں میں سعودی عرب سرِفہرست ہے، جہاں گداگر حاجی ویزا کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جس کے لیے بینک اکاؤنٹ سٹیٹمنٹ، ٹیکس دستاویزات، پیشہ ورانہ آمدنی اور جائیداد کے کاغذات جیسی سخت دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوتی۔
کئی مہینوں سے خلیجی ممالک کے مختلف سفارت کار زور دے رہے ہیں کہ ان کی جیلیں پاکستانی بھکاریوں سے بھری ہوئی ہیں اور انہوں نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس عجیب و غریب مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدم اٹھائے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گذشتہ ماہ ملتان ایئرپورٹ پر سعودی عرب جانے والی ایک پرواز سے مبینہ طور پر 16 بھکاریوں کو اتار دیا۔
ایک ہفتے بعد اسی ایئرپورٹ پر آٹھ مزید بھکاریوں کو اتارا گیا۔ یہ تمام افراد جنوبی پنجاب کے اضلاع سے تعلق رکھتے تھے، وہ اضلاع جو سماجی اور اقتصادی ترقی کے انڈیکس پر سب سے نچلی سطح پر ہیں۔
اتارے گئے مسافروں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انہوں نے ویزا حاصل کرنے کے لیے ایجنٹوں کو تقریباً ایک لاکھ 85 ہزار روپے ادا کیے، جبکہ کچھ نے اپنے سہولت کاروں کے ساتھ اس بات پر معاہدہ کیا کہ وہ اپنے گداگری کی آمدنی کا 50 فیصد ویزا دستاویزات اور سفر کے اخراجات کے لیے دیں گے۔
تاہم، غیر ممالک (اور اندرون ملک) بھکاریوں کے بہاؤ کو روکنے کی بنیادی ذمہ داری پاکستان کی حکومت پر ہے، جو ہمیشہ سے ملکی سطح پر گداگری کے معاملے میں سست رہی ہے۔
مضبوط اور مستقل پالیسیوں کے بغیر بھکاری مافیا اس منافع بخش کاروبار سے کیوں دستبردار ہوں گے؟
عزت، شرم اور معاشرتی حیثیت ایک ایسے معاشرے میں روزگار کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں جہاں مواقع بہت کم ہیں، نظامی غربت عام ہے اور قانونی رکاوٹیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جو گداگروں کو بھیک مانگنے کے ذریعے پیسہ کمانے سے روک سکیں۔
شاید اس حقیقت کے سبب کہ پاکستانی بھکاری دنیا میں پھیل رہے ہیں، مزید بین الاقوامی دباؤ آئے گا اور اس کے نتیجے میں اس موضوع پر قومی سطح پر اور مین سٹریم گفتگو میں اضافہ ہو گا۔
شاید تب اس دلخراش پیشے کو، جو بنیادی طور پر استحصال زدہ بچوں کے لیے مخصوص ہے، اس ہنگامی صورت حال کے ساتھ نمٹا جائے گا جس کا یہ تقاضا کرتا ہے۔
بشکریہ عرب نیوز
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
رسول بخش رئیس لمز لاہور کے شعبہ ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’اسلام، قومیت اور طاقت کی سیاست: پاکستان کی قومی شناخت کی تعمیر‘ ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے 2017 میں شائع ہوئی۔