پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں لاکھوں بچے غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ (یو این) کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2023 میں دنیا بھر کے 28 کروڑ 20 لاکھ افراد جبکہ پاکستان کے ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد کو شدید غذائی قلت کا سامنا رہا ہے۔
اس مسئلے کے تناظر میں حکومت پنجاب کی جانب سے سکول نیوٹریشن پروگرام کا جمعرات کو ڈیرہ غازی خان سے باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے جس کے تحت پرائمری تک بچوں کو سکول میں مفت دودھ فراہم کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے مطابق پہلے مرحلے میں ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ اور راجن پور سے یہ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پورے صوبے میں بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے سکولوں میں مفت دودھ فراہم کیا جائے گا۔‘
شعبہ نیوٹریشن فوڈ اتھارٹی پنجاب کے سربراہ سرمد آصف نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان سمیت پنجاب میں غذائی قلت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ضروری نہیں پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس کے لیے انسانی جسم کے لیے ضروری خوراک لازمی ہے یعنی متوازن خوراک چاہیے ہوتی ہے۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک کی طرح خوراک کی فراہمی کے ساتھ نیوٹریشن کی تعلیم بھی بچوں کے کورس میں شامل ہونی چاہیے۔‘
رواں برس اپریل میں اقوام متحدہ نے غذائی قلت اور خوراک کے بحران سے متعلق رپورٹ میں دنیا بھر کے 59 ممالک میں خوراک کی قلت اور وہاں غذائی بحرانوں کا جائزہ لیا۔
جس میں معلوم ہوا کہ 2022 کے مقابلے میں 2023 میں 25 لاکھ افراد زیادہ شدید غذائی قلت کا شکار رہے۔
رپورٹ میں پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں کیا گیا ہے، جہاں 2016 سے 2023 تک مسلسل سالانہ بنیادوں پر لاکھوں لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا رہا۔ غذائی قلت کے شکار بڑے ممالک میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، بنگلہ دیش، یمن، سوڈان، نائیجریا اور میانمار بھی شامل ہیں۔
اسی طرح فلسطین اور سوڈان میں خوراک کی قلت کی صورت حال بھی سنگین رہی۔
ریاست ہو گی ماں کے جیسی pic.twitter.com/zKqkBPU5c0
— Rashid Nasrullah (@RashidNasrulah) September 5, 2024
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2023 میں 11 لاکھ سے زائد فلسطینی بھی شدید غذائی قلت کا شکار رہے اور وہاں خوراک سے محروم افراد پانچویں کیٹیگری میں شامل رہے جو کہ عالمی ادارے کی سنگین ترین کیٹیگری ہے۔
یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کے باعث 41 لاکھ بچوں میں جسمانی نشوونما نہیں ہو رہی۔ اسی طرح لاکھوں بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی طرح 53 فیصد خواتین میں بھی خون کی کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔
یونیسف اور دیگر اداروں کے اشتراک سے مرتب کی گئی ایک سروے رپورٹ کے مطابق صوبے پنجاب میں 36 فیصد سے زائد بچے نامکمل نشوونما کا شکار ہیں جبکہ 23 فیصد وزن میں کمی اور 15 فیصد بچے پیدائش سے قبل ہی وفات پا جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غذائی قلت کی کس طرح بڑھتی ہے؟
یونیسیف سمیت مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق پنجاب میں ہر 10 میں سے چار بچوں کو غذائی قلت کے باعث نامکمل نشوونما جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ جبکہ ملک بھر میں خوراک کی کمی کی وجہ سے 30 فیصد سے زائد بچے خطرناک بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے نیشنل نیوٹریشن سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں 80 فیصد خواتین وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں جس سے ان میں ہڈیوں کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح 42 فیصد خواتین میں وٹامن اے کی کمی ہے جبکہ 28 فیصد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں، 14 فیصد عورتوں کا وزن کم ہے۔
سرمد آصف کے بقول، ’بچوں میں سب سے زیادہ غذائی قلت کی وجہ خواتین میں مزکورہ جسمانی مسائل ہیں۔ کیونکہ بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں تو وہ بھی غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب ہم بچوں میں غذائی قلت کی بات کرتے ہیں تو یہ خیال آتا ہے کہ شاید کہیں تھرپارکر یا پسماندہ علاقے کے بچے کی بات ہورہی ہے۔ حالانکہ غذائی قلت کا شکار کوئی بھی بچہ ہو سکتا ہے۔ کھانے کے لیے بچوں کو چاہے زیادہ ملتا ہو لیکن جب تک وٹامنز، کیلشیم، منرلز، سمیت دیگر ضروریات پوری ہونی چاہییں۔‘
سرمد کے مطابق، ’بچوں میں غذائی قلت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ملاوٹ والی اشیا یا جنک فوڈز وغیرہ۔ بچوں کو بھوک لگتی ہے تو مائیں برگر یا فاسٹ فوڈ کھلا دیتی ہیں۔ اگر دودھ پلایا جاتا ہے تو اس میں ملاوٹ ہوگی تو جسمانی ضرورت پوری نہیں ہوگی۔‘
غذائی قلت پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے؟
وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈیرہ غازی خان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس پنجاب میں ہزاروں سکول ہیں جن میں لاکھوں بچے پڑھتے ہیں، پاکستان امیر ملک نہیں وسائل تھوڑے ہیں اچھا وقت آئے گا اور آ رہا ہے۔ ہماری پوری کوشش ہوگی بچوں کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے جو کچھ کرسکتی ہوں وہ کروں۔‘
شعبہ نیوٹریشن فوڈ اتھارٹی پنجاب کے سربراہ سرمد آصف نے کہا کہ ’ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں بھی متوازن غذا کا یقینی بنانے کے لیے ماؤں اور بچوں کو نیوٹریشن کی تعلیم لازمی دی جائے۔ جس طرح کئی ممالک میں کوئی انجینیئر یا پائلٹ بننے کی تعلیم بھی حاصل کرے اسے نیوٹریشن کی تعلیم لازمی دی جاتی ہے۔ بچوں کے کورس میں نیوٹریشن پڑھانے سے نہ صرف وہ اپنی خوراک متوازن رکھ سکتے ہیں بلکہ بڑے ہو کر اپنے بچوں کو بھی غذائی قلت سے محفوظ رکھیں گے۔‘
سرمد آصف کا کہنا ہے کہ’جہاں غربت وافلاس ہے وہاں تو خوراک کی ہی قلت ہوتی ہے لیکن خوشحال گھرانوں میں بھی صرف خوراک کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ متوازن خوراک لازمی ہوتی ہے۔ اس لیے ویسے تو تمام شہریوں خاص طور پر خواتین کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ کس چیز میں انسانی جسم کے لیے کتنی غذائیت ہے۔ پھل، روٹی، دودھ، گوشت، سبزیاں وغیرہ ایک خاص مقدار میں انسانی جسم کو مختلف قوت بخشتے ہیں۔‘