’نیکی کا حکم‘: ہم طالبان کے نئے اخلاقی قانون سے متعلق کیا جانتے ہیں؟

طالبان حکام تین سال قبل دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پہلے ہی ایسے طرز عمل پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں جنہیں وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔

26 اگست 2023 کو ہیرات میں طالبان سکیورٹی اہلکار پاسپورٹ آفس کے باہر کھڑی خواتین کو ہدایات دے رہا ہے (اے ایف پی/ محسن کریمی)

طالبان حکومت کے ’نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے‘ کے نئے قانون نے افغان معاشرے کے لیے سخت قوانین کو ضابطے میں تبدیل کر دیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق حالیہ دنوں میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ طالبان کی اخلاقی پولیس اس قانون پر عمل درآمد کروا رہی ہے، تاہم، دیگر عناصر کا نفاذ ابھی باقی ہے۔

طالبان حکام تین سال قبل دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پہلے ہی ایسے طرز عمل پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں جنہیں وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔

نئے قانون اور معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

یہ متن 35 شقوں پر مشتمل ہے۔ سب سے زیادہ تنقید جس پر ہو رہی وہ یہ بات ہے کہ گھر سے باہر عورت کی آواز بلند نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی وہ اونچی آواز میں گا یا شاعری پڑھ سکتی ہے۔

غیر متعلقہ مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا ہے اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلم عورتوں کے سامنے اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپیں۔

مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مٹھی سے زیادہ داڑھی بڑھائیں، ڈھیلے کپڑے پہنیں اور ناف اور گھٹنے کے درمیان اپنے جسم کو ظاہر نہ کریں۔

میڈیا پر اسلام کا مذاق اڑانے یا اس کی توہین کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، ٹرانسپورٹ کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ نماز کے اوقات کے مطابق شیڈول تبدیل کریں اور مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ غیر مسلموں سے دوستی یا ان کی مدد نہ کریں۔

کچھ روایتی کھیلوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے، کمپیوٹر یا سمارٹ فونز پر زندہ چیزوں کی تصاویر لینے یا دیکھنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

والدین کی نافرمانی کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔

21  اگست کو اس قانون کے اعلان کے بعد سے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اے ایف پی نے طالبان حکام کی جانب سے بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال کے ثبوت جمع کیے ہیں۔

نفاذ کی ذمہ داری وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اخلاقی پولیس کو سونپی گئی ہے۔

دارالحکومت کابل میں گھومنے والی ٹیموں نے محرم مرد کے بغیر سفر کرنے والی اور اپنے بال یا ہاتھ ظاہر کرنے والی خواتین کو وارننگ دی ہے۔

قوانین کے اعلان کے بعد سے کابل کے ایک 23 سالہ شخص نے بتایا کہ اسے تین بار روکا گیا۔

اس نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میری داڑھی کیوں نہیں ہے۔ میں ڈر گیا تھا اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں اسے بڑھاؤں گا۔‘

شمالی مزار شریف میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کا کہنا ہے کہ انہیں کئی بار تنبیہ کی گئی کہ ایسی خواتین کو نہ لے جایا جائے جن کے ساتھ محرم نہیں یا جنہوں نے مکمل پردہ نہیں کر رکھا۔

جبکہ وسطی پروان میں چہرے نہ ڈھانپنے پر خواتین کی سرزنش کی گئی۔

کابل کے ایک بینک میں تمام عملے نے نئے قانون کی تعمیل کے لیے اپنے مغربی لباس کو روایتی لباس میں تبدیل کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم، اس ہفتے، خواتین کی آوازیں اب بھی ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنوں پر سنی جا سکتی ہیں۔

2021 میں امریکی قیادت والے فوجیوں کو نکالنے کے بعد سے طالبان حکومت نے وقفے وقفے سے سماجی پابندیوں کا اعلان کیا ہے جس میں مردوں اور عورتوں کو الگ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

ان میں سے بہت سے سابقہ احکامات نئے قانون کے ہم آہنگ ہیں اور پہلے ہی نافذ العمل تھے۔

لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں اور خواتین کے یونیورسٹیوں میں داخلے پر طویل عرصے سے پابندی عائد ہے۔ اس سے قبل سفر کرنے والی خواتین کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ خاندان کے کسی رکن کے ساتھ گھر سے نکلیں اور عوامی مقامات پر سر سے پاؤں تک خود کو ڈھانپیں۔

مقررہ اوقات میں نماز کو فرض قرار دیا گیا ہے جبکہ عوامی مقامات پر موسیقی اور جوا کھیلنا حرام قرار دیا گیا ہے۔

زیادہ تر عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں کا الگ رہنا پہلے سے ہی ضروری ہے۔ اس سے قبل، ہم جنس پرستی اور منشیات کے استعمال پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

تاہم یہ نئی دستاویز طالبان کی واپسی کے بعد سے معاشرے کے لیے وژن کا سب سے جامع منشور ہے اور اس میں پولیس کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

ان میں زبانی انتباہ سے لے کر ڈرانے، جرمانوں اور مختلف مدت کی حراست تک شامل ہیں۔

طالبان حکومت کی جانب سے اعلان کردہ قانون نے بہت سے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو صرف ’فوری ضرورت‘ کے لیے گھر سے باہر نکلنا چاہیے، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کن حالات کو فوری سمجھتے ہیں۔

غیر مسلموں سے دوستی اور ان کی مدد پر پابندی کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ افغانوں پر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی ہے یا نہیں ۔۔ جو معاشی طور پر مشکلات میں مبتلا ملک کے لیے ایک اہم جز ہیں۔

اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود طالبان حکومت کو مغربی ممالک کے ساتھ معاملات کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس سے انہیں عالمی سطح پر مسترد کیے جانے کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اور یہ واضح نہیں ہے کہ فون اور ٹی وی پر میڈیا کی نگرانی کیسے کی جائے گی۔

لیکن شاید سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ نئے قانون کو کس طرح یکساں اور سختی سے نافذ کیا جائے گا۔

جولائی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس نئے قانون سے پہلے اخلاقی اقدامات اور ان کے نفاذ کے بارے میں ’ ابہام اور عدم تسلسل‘ تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا