ٹرمپ کے خلاف جعلسازی کیس کا فیصلہ الیکشن تک مؤخر

سابق امریکی صدر کو 18 ستمبر کو سزا سنائی جانا تھی۔ تاہم جج نے ان کے وکلا کی درخواست پر اسے 26 نومبر تک ملتوی کر دیا۔

امریکی سابق صدر اور رپنلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ چھ ستمبر 2024 کو نیویارک شہر کے ٹرمپ ٹاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکی صدارتی انتخابات میں رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی کے متعلق مقدمے میں سزا کا فیصلہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات تک موخر کر دیا گیا ہے۔

سابق امریکی صدر کو 18 ستمبر کو سزا سنائی جانا تھی۔ تاہم جج جوان مرچن نے ٹرمپ کے وکلا کی درخواست پر اسے 26 نومبر تک ملتوی کر دیا۔

انہوں نے لکھا کہ ’عدالت نے یہ فیصلہ آسانی سے نہیں کیا، لیکن عدالت کے خیال میں یہی وہ فیصلہ ہے جو انصاف کے تقاضوں کو بہتر طور پر پورا کرتا ہے۔‘

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں ملتوی کیا گیا ہے جب ٹرمپ اور ان کی مخالف ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کملا ہیرس آئندہ منگل کو مباحثے کے سٹیج پر آمنے سامنے ہوں گے۔

ٹرمپ نے سزا میں تاخیر کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر اس کیس کو ’ سیاسی انتقام‘ قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کیس کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔‘

سیاسی طور پر نقصان دہ

78 سالہ ٹرمپ کو مئی میں 34 الزامات میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2016 کے انتخابات سے قبل مبینہ جنسی تعلقات کا انکشاف کرنے سے روکنے کے لیے پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو خفیہ رقم کی ادائیگی کی اور اس ادائیگی کو چھپانے کے لیے کاروباری ریکارڈ میں ہیرا پھیری کی تھی۔

دو بار مواخذے کا سامنا کرنے والے سابق صدر کو اصل میں 11 جولائی کو سزا سنائی جانا تھی۔

اس میں اس وقت تاخیر ہوئی جب امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ایک سابق صدر کو فوجداری مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔

ٹرمپ کے وکلا نے درخواست دی تھی کہ سپریم کورٹ کے استثنیٰ کے فیصلے کے بعد نیویارک میں ان کی سزا کو کالعدم قرار دیا جائے۔

جج نے کہا کہ وہ 12 نومبر کو برطرفی کی درخواست پر فیصلہ سنائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ نے سزا میں تاخیر کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ’سیاسی طور پر نقصان دہ‘ اثرات سے بچا جا سکے، جو عوامی سطح پر سزا کے اعلان سے ان پر اور آنے والے انتخابات پر پڑ سکتے ہیں۔

اس سے چند گھنٹے قبل ٹرمپ نیویارک میں اپنے بے شمار قانونی مسائل کے بارے میں بیان دے رہے تھے اور انہوں نے خواتین کی جانب سے جنسی ہراسانی یا دست درازی کے متعدد الزامات کی تردید کی تھی۔

ٹرمپ ٹاور میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ’اس طرح کی تشہیر آپ پسند نہیں کرتے‘، حتییٰ کہ انھوں نے ووٹروں کو لکھاری ای جین کیرول سمیت مختلف خواتین کی جانب سے جنسی استحصال کے الزامات کی یاد دلانے میں ایک گھنٹہ گزارا۔

مداخلت

ان مقدمات پر ٹرمپ کا تفصیلی تبصرہ حیران کن تھا کیونکہ ملک کی پہلی خاتون صدر بننے کا ارادہ رکھنے والی 59 سالہ ہیرس کے خلاف سخت مقابلے میں مضافاتی خواتین جیسے گروہوں کا جیتنا ان کے لیے ضروری ہے۔

ٹرمپ جمعے کو نیویارک کی ایک عدالت میں کیرول کیس میں پیش ہوئے تھے، جس میں انہیں جنسی زیادتی اور ہتک عزت کے جرم میں 50 لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ٹرمپ نے اس کیس کو ’سیاسی مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’میں ان سے کبھی نہیں ملا۔ میں نے انہیں کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قانونی ڈرامہ اس دن سامنے آیا جب انتخابات کے پہلے ڈاک بیلٹ تقسیم کیے جانے تھے۔

ریاست نارتھ کیرولائنا میں ایک لاکھ 30 ہزار غیر حاضر ووٹنگ سلپس بھیجنی تھیں، جو ملک گیر عمل کا علامتی آغاز تھا جس میں 2020 کے سخت انتخابات کے دوران 15 کروڑ 50 لاکھ امریکیوں نے ووٹ ڈالے تھے۔

تاہم آزاد امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی جانب سے آخری لمحات میں دائر کیے گئے مقدمے کے بعد ریاستی اپیل کورٹ نے اس عمل کو روک دیا۔

کینیڈی جونیئر اپنے نام کو بیلٹ سے ہٹوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکہ کے سب سے مشہور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے امیدوار نے ٹرمپ کی حمایت کی ہے۔

دیگر ریاستوں میں بھی جلد ہی  ایسے بیلٹ پیپر جاری کیے جائیں گے اور 20 ستمبر سے 47 ریاستوں میں ووٹنگ شروع ہو جائے گی۔

ٹرمپ جمعے کو شمالی کیرولائنا گئے انہیں ملک کی سب سے بڑی قانون نافذ کرنے والی یونین برادرانہ آرڈر آف پولیس کی حمایت ملی اور انہوں نے ملک میں ’امن و امان کی بحالی‘ کا عہد کیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’کملا ہیرس اور کمیونسٹ بائیں بازو نے ہماری سرزمین پر خونریزی، جرائم، افراتفری، بدحالی اور موت کا وحشیانہ طاعون مسلط کر رکھا ہے۔‘

ہیرس نے یونی وژن ریڈیو سٹیشن سے بات کرتے ہوئے سامعین سے کہا کہ ’ہمیں ٹرمپ کے اس دور کا صفحہ پلٹنے کی ضرورت ہے۔‘

جمعہ کو انہیں ایک اہم حمایت ملی - ریپبلکن سابق نائب صدر ڈک چینی کی طرف سے، جنہوں نے کہا: ’ہماری جمہوریہ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑا خطرہ کبھی کوئی فرد نہیں رہا۔‘

ہیرس کی انتخابی مہم کے سربراہ جین او میلی ڈیلن نے کہا کہ ان کی بیٹی لز چینی نے رواں ہفتے عوامی طور پر ہیرس کی حمایت کی اور ان سینکڑوں دیگر ریپبلکن ارکان میں شامل ہو گئیں جنہوں نے اپنے والد کی طرح ’ملک کو پارٹی پر ترجیح‘ دی ہے۔

چھ ہفتے قبل ہیرس کے انتخابات میں شمولیت سے ڈیموکریٹس میں جوش و خروش بڑھ گیا تھا جو صدر جو بائیڈن کی جانب سے ٹرمپ کو شکست دینے کے امکانات سے مایوس تھے۔

ان کی ٹیم نے جمعے کو اعلان کیا کہ اس نے اگست میں 36 کروڑ 10 لاکھ ڈالر جمع کیے،جو اس انتخابی مہم کے دوران جمع کی جانے والی سب سے بڑی ماہانہ رقم ہے اور ٹرمپ کے اعداد و شمار کے تقریبا تین گنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ