امریکہ کی صدارت کے لیے ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک مباحثہ اے بی سی نیوز کی میزبانی میں ٹیلی وژن پر بدھ کو نشر ہو رہا ہے۔
فلاڈیلفیا میں منعقد ہونے والے اس مباحثے میں ایک امیدوار کا مائیکروفون بند، بغیر نوٹس اور براہ راست سامعین نہ ہونے سمیت سخت قوانین پر عمل کیا گیا ہے۔
مباحثے کے آغاز میں دونوں صدارتی امیدواروں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر ہاتھ ملائے، جب کہ مصافحے کے لیے پہلے ہاتھ ہیرس نے بڑھایا۔
جولائی میں صدر جو بائیڈن کے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ سے دستبردار ہونے کے بعد یہ پہلا مباحثہ تھا جس کے بعد نائب صدر ہیرس کو پارٹی کی قیادت سونپ دی گئی تھی۔
مباحثہ شروع ہونے کے بعد انہوں نے اپنے ریپبلکن حریف پر تنقید کا آغاز کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا اور ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ ’گریٹ ڈپریشن کے بعد بدترین بے روزگاری‘ کے ساتھ ساتھ ’صدی میں صحت عامہ کی بدترین وبا‘ اور ’خانہ جنگی کے بعد ہماری جمہوریت پر بدترین حملے‘ کو پیچھے چھوڑ کر گئے تھے۔
ہیرس نے اپنے آپ کو ایک ایسی رہنما کے طور پر پیش کیا جس نے ٹرمپ کا پیچھے چھوڑا ہوا ’گند‘ صاف کیا۔
مباحثے کے دوران ایک اہم اور زیادہ تند و تیز گفتگو اسقاط حمل کے حقوق کے موضوع پر ہوئی۔
کملا ہیرس نے ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ اسقاط حمل کے وفاقی تحفظ کو ختم کرنے کی اپنی کوششوں کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جان بوجھ کر تین قدامت پسند سپریم کورٹ ججوں کا انتخاب اس مخصوص نیت کے ساتھ کیا کہ وہ ’رو بمقابلہ ویڈ‘ (جو اسقاط حمل کے حقوق کے تحفظ کا فیصلہ تھا) کو ختم کریں۔ آخرکار، ان کی حکومت کے دوران یہ فیصلہ واقعی منسوخ کر دیا گیا۔
ہیرس نے تولیدی حقوق کے بارے میں ٹرمپ کے موقف کو ’امریکی خواتین کی توہین‘ قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ ’آپ جھوٹ کا ایک مجموعہ سنیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ٹرمپ نے فوری طور پر جواب دیتے ہوئے ہیرس کے متعلق کہا کہ ان کی اپنی کوئی اصل معاشی پالیسی نہیں ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ہیرس نے جو بائیڈن کا پلان نقل کیا ہے اور اسے ’چار جملوں‘ سے زیادہ نہیں قرار دیا تھا جس میں ٹیکس کم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ٹرمپ نے ہیرس پر ’مارکسسٹ‘ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے والد کے معاشیات کے پروفیسر کی حیثیت سے پس منظر کا حوالہ دیا۔
ٹرمپ نے مباحثے کے دوران دعویٰ کیا کہ ’ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ مارکسسٹ ہیں۔ ان کے والد معاشیات میں مارکسسٹ پروفیسر ہیں اور انہوں نے اسے اچھی طرح پڑھایا ہے۔‘
مباحثے کے دوران ٹرمپ نے ایک بار پھر 2020 کے انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ گذشتہ برسوں کے دوران ان کے خلاف کی جانے والی تنقید کی وجہ سے انہوں نے’تقریبا سر میں گولی‘ کھائی ہے۔
آپ کا مقابلہ جو بائیڈن سے نہیں ہے
ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس نے منگل کو صدارتی مباحثے میں اپنے ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو یاد دلایا کہ ان کے دیرینہ حریف جو بائیڈن اب اس دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔
ہیرس نے پرائم ٹائم اے بی سی مباحثے کے دوران ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سابق صدر کو یاد دلانا ضروری ہے کہ آپ کا مقابلہ جو سے نہیں ہے، آپ کا مقابلہ میرے ساتھ ہے۔‘
ہیرس صدر بنیں تو اسرائیل ہاتھ سے گیا
مباحثے کے دوران ٹرمپ نے ہیرس پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کی حمایت کرنے میں ناکام رہی ہیں جو امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ’وہ اسرائیل سے نفرت کرتی ہیں۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ اگر کملا ہیرس صدر بن گئیں، تو ان کی صدارت کے دوران ’اسرائیل دو سال کے اندر ختم ہو جائے گا۔‘
ڈیموکریٹک نائب صدر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا یہ الزام کہ وہ اسرائیل سے نفرت کرتی ہیں ’بالکل غلط‘ ہے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اور کیریئر میں ہمیشہ اس ملک کی حمایت کی ہے۔
پوتن دوپہر کے کھانے پر ٹرمپ کو کھا جائیں گے
کملا ہیرس نے منگل کو ڈونلڈ ٹرمپ پر روس کے صدر ولادی میر پوتن جیسے مضبوط سربراہان کی حمایت کا الزام عائد کیا اور کہا کہ سابق امریکی صدر دباؤ کے سامنے ’ہار جائیں گے‘ اور پوتن ’آپ کو دوپہر کے کھانے کے طور پر کھا جائے گا۔‘
ہیرس نے ٹرمپ کے ساتھ صدارتی مباحثے کے دوران کہا کہ ’پوٹن کیئف میں بیٹھا ہوگا اور اس کی نظریں باقی یورپ، خاص طور پر پولینڈ پر ہوں گی‘ اور یہ بھی کہا کہ ’آپ کتنی جلدی شکست تسلیم کر لیں گے، جسے آپ دوست سمجھتے ہیں، وہ ایک آمر ہے جو آپ کو دوپہر کے کھانے کے طور پر کھا جائے گا۔‘
امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے منگل کو ایک اہم مباحثے کے دوران ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی عوام کو تقسیم کرنے کے لیے نسلی کشیدگی بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہیرس نے کہا کہ ’یہ ایک سانحہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا شخص ہے جو صدر بننا چاہتا ہے اور جس نے اپنے کیریئر کے دوران مسلسل نسلی تفریق کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔‘
صدارتی مباحثے کی تاریخ
امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل اُمیدواروں کے درمیان صدارتی مباحثے نہ صرف رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ اس سے اہم قومی معاملات پر اُمیدواروں کا نکتۂ نظر بھی سامنے آتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق امریکی سیاست میں اُمیدواروں کے درمیان مباحثے کی تاریخ 162 سال پرانی ہے۔ ان مباحثوں کا آغاز 1858 میں سینیٹ کی نشست کے لیے دو اُمیدواروں ابراہم لنکن اور اسٹیفن ڈگلس کے درمیان ہونے والے مباحثے سے ہوا تھا۔
ابراہم لنکن سینیٹ کی نشست تو نہ جیت سکے لیکن اس مباحثے میں غلامی کے خلاف دیے گئے دلائل کی کاپیاں ملک بھر میں تقسیم کی گئیں جس نے 1860 میں اُن کی وائٹ ہاؤس تک رسائی آسان بنائی۔
امریکہ میں صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثوں کا باقاعدہ آغاز 1960 میں ہوا جب اُس وقت کے ڈیمو کریٹک امیدوار جان ایف کینیڈی اور ری پبلکن اُمیدوار اور امریکہ کے نائب صدر رچرڈ نکسن نے اہم قومی معاملات پر اپنی پالیسی اور منشور پر ایک دوسرے کے ساتھ بحث کی جس کے بعد ہر الیکشن سے قبل یہ مباحثے روایت بن گئے۔
یہ مباحثہ سی بی ایس ٹی وی چینل کے اسٹوڈیو میں ہوا تھا۔ سی بی ایس کے علاوہ اے بی سی اور این بی سی می وی چینلز نے بھی مباحثوں کی میزبانی کی۔ ہر مباحثے میں مختلف صحافیوں کے پینلز نے اُمیدواروں سے سوالات کیے۔
1960 کے مباحثے کے بعد ایک بار پھر 16 سال تعطل رہا اور دوبارہ 1976 میں ری پبلکن صدر جیرالڈ فورڈ اور اُن کے مخالف ڈیمو کریٹک اُمیدوار جمی کارٹر کے درمیان مباحثوں سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔
صدارتی مباحثوں کی انتخابات میں اہمیت
ان مباحثوں کی اگرچہ کوئی آئینی ضرورت نہیں لیکن انتخابی مہم کے دوران دونوں جانب کا منشور عوام کے سامنے لانے اور حکومت کے اقدامات پر حزب اختلاف کی رائے کو عوام کے سامنے لانے یہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
2020 میں کرونا وبا کے سبب ان مباحثوں کی اہمیت دو چند ہوگئی کیوں کہ دونوں صدارتی امیدوار ٹرمپ اور بائیڈن لاک ڈاؤن کے سبب مربوط عوامی رابطے نہیں کر پا رہے تھے اور ان مباحثوں کے ذریعے اپنا لائحہ عمل عوام کے سامنے لا رہے تھے اور مخالف کی حکمت عملی پر تنقید کر رہے تھے۔
مباحثوں کا طریقۂ کار
مباحثے کے دوران صدارتی امیدوار طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جب کہ مباحثے کے میزبان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اُمیدواروں سے سوال پوچھے۔
کیوں کہ یہ مباحثے ٹی وی پر براہ راست دکھائے جا رہے ہوتے ہیں تو ان میں محدود تعداد میں لوگوں کو آنے کی اجازت ہوتی ہے۔
عام طور پر سوال و جواب کا سیشن 15، 15 منٹ کے چھ حصوں یا 10، 10 منٹ کے نو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں اُمیدواروں سے ملکی معاملات، خارجہ پالیسی، صحت، عدالتی نظام اور دیگر معاملات سے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں۔
ہر سوال کے جواب کے لیے اُمیدوار کو دو منٹ کا وقت دیا جاتا ہے اور اس دوران مخالف اُمیدوار کو تردید یا اس سے متعلق جواب دینے کے لیے ایک منٹ دیا جاتا ہے۔
بدھ کو فلاڈیلفیا میں نشر ہونے والے مباحثے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے میزبانوں پر ان کی مخالف یعنی کملا ہیرس کی طرفداریت کا الزام لگا یا ہے۔