ملازمت میں توسیع پر چیف جسٹس کی گفتگو کی غلط تشریح ہوئی: بیان

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکریٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے منگل کو وضاحت کی ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق چیف جسٹس کی ’آف دی ریکارڈ گفتگو کی غلط تشریح کی گئی اور اسے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 18 ستمبر 2023 کو سپریم کورٹ میں اپنے پہلے مقدمے کی ٹیلی ویژن پر لائیو نشر ہونے والی کارروائی کے دوران (پی ٹی وی سکرین گریب)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکریٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے منگل کو وضاحت کی ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق چیف جسٹس کی ’آف دی ریکارڈ گفتگو کی غلط تشریح کی گئی اور اسے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا۔‘

پیر (نو ستمبر) کو نئے عدالتی سال کے موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو سے متعلق خبریں میڈیا میں رپورٹ ہوئی تھیں، جن کے مطابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ باقی تمام ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کر بھی دی جائے تب بھی وہ توسیع قبول نہیں کریں گے۔

اسی تناظر میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکریٹری ڈاکٹر محمد مشتاق کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں اس حوالے سے تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔

اعلامیے کے مطابق: ’گذشتہ روز (نو ستمبر کو) عدالتی سال کا آغاز تھا اور اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو خطاب اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مدعو کیا گیا جو انہوں نے کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے آخر میں بات کی۔‘

مزید کہا گیا کہ ’کارروائی کے اختتام پر شرکا کو چائے پر مدعو کیا گیا جس کے دوران کچھ صحافی چیف جسٹس کے گرد جمع ہوئے، ان سے بات کی اور ان سے سوالات کیے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وہ ان سے آف دی ریکارڈ بات کر رہے ہیں لیکن چونکہ گفتگو کی غلط تشریح کی گئی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جو ہوا اسے درست طریقے سے پیش کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اعلامیے کے مطابق: ’چیف جسٹس سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سوال کیا گیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ کئی ماہ قبل وزیر قانون (اعظم نذیر تارڑ) ان کے چیمبر میں ان کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت کو تین سال کی مدت تک بڑھانے پر غور کر رہی ہے۔

’چیف جسٹس نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے وزیر قانون سے کہا کہ اگر تجویز انفرادی ہے اور اگر نافذ کی گئی تو وہ قبول نہیں کریں گے۔ اس میٹنگ میں (ایک) سینیئر جج اور اٹارنی جنرل موجود تھے۔ وزیر قانون نے پارلیمانی کمیٹی کے کردار کا بھی ذکر کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں کمی آئی ہے، اس لیے اسے اور جوڈیشل کمیشن کو ایک باڈی میں شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

’جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو خارج نہیں کیا جائے گا۔‘

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’اس کے بعد وزیر قانون نے چیف جسٹس سے نجی ملاقات نہیں کی اور نہ ہی چیف جسٹس سے ایسے کسی معاملے پر کوئی بات چیت کی۔‘

سیکریٹری محمد مشتاق کے مطابق غیر رسمی گفتگو کے دوران صحافیوں نے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کے ایک بیان کا بھی حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ انہوں نے ان (رانا ثنا اللہ) سے ملاقات نہیں کی اور انہیں نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا کہا، اس لیے اگر کوئی سوال ہے تو براہ راست ان سے بات کریں۔

اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس سے ججوں کی تعداد میں اضافے کی تجویز کے حوالے سے بھی سوالات کیے گئے، جس پر جسٹس قاجی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’پہلے خالی آسامیوں کو پُر کیا جائے تو بہتر ہے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’یہ افسوس ناک ہے کہ ایک آف دی ریکارڈ گفتگو غیرضروری اور غلط طریقے سے نشر اور شائع کی گئی، جس سے سنسنی پیدا ہوئی۔‘

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ غلط خبر سے چند افراد کو غیر ضروری توجہ اور اہمیت ملی اور اداروں کی اہمیت کم ہوئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان