لاہور: 43 شرائط کے ساتھ پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت مل گئی

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کو شہر کے علاقے کاہنہ میں جلسے کی مشروط اجازت دے دی۔

20 جولائی، 2018 کو عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے حامی ملتان میں پارٹی کا الیکشن نشان بلا اٹھائے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو جلسے کی مشروط اجازت دے دی۔

پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی فرخ جاوید مون نے بتایا کہ ان کے لاہور انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد پارٹی کو کل (بروز ہفتہ) دوپہر جلسے کی اجازت مل گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کل کاہنہ میں جلسہ کرے گی اور وینیو کا اجازت نامہ کچھ دیر میں مل جائے گا۔

اجازت نامے کے مطابق دوپہر تین سے شام چھ بجے تک ہونے والے جلسے میں سٹیج کی سکیورٹی و دیگر انتظامات جلسہ منتظمین کی ذمہ داری ہوں گے۔

آٹھ ستمبر، 2024 کے اسلام آباد کے جلسے میں ’زہر فشانی‘ پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا عوامی معافی مانگیں گے۔

ایک اور شرط میں کہا گیا کہ شہر سے باہر سے جتھے آ کر شہر کا ماحول خراب نہیں کریں گے۔

اسلام آباد کے جلسے میں نفرت پر مبنی تقریر کے ملزمان سٹیج پر نہ آئیں گے جبکہ ریاست مخالف نعرے نہیں لگیں گے۔

جلسے میں کوئی اشتہاری ملزم شریک نہیں ہوں گے اور اگر وہ شریک ہوئے تو جلسہ انتظامیہ ان کی گرفتاری کے لیے ذمہ دار ہو گی۔

رنگ روڈ کاہنہ پر کوئی استقبالیہ ڈیسک قائم نہیں کیے جائیں گے۔ کوئی واک چاکنگ نہیں کی جائے گی۔ امن وامان برقرار رکھا جائے گا۔

قابل اعتراض نعرے بازی نہیں ہو گی، کسی کو جلسے میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، کوئی پتلا یا جھنڈا جلایا نہیں جائے گا۔  پولیس کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔ 

این او سی کی مزید شرائط کے مطابق منتظمین سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے پولیس حکام سے معاونت کریں گے، کسی سزا یافتہ شخص کا آڈیو یا ویڈیو پیغام نہیں چلایا جائے گا، ڈیک اور ساؤنڈ سسٹم کا استعمال پنجاب ساؤنڈ سسٹم آرڈیننس کے تحت کیا جائے گا اور ساؤنڈ سسٹم کم آواز میں استعمال کیا جائے گا۔

اسی طرح منتظمین یقینی بنائیں گے کہ شرکا اور کارکن شرائط کی پاسداری کریں جبکہ کسی واقعے کی ذمہ داری منتظمین پر ہو گی۔

لاہور ہائی کورٹ نے آج جلسے سے متعلق متفرق درخواستیں نمٹاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) موسیٰ رضا کو آج شام پانچ بجے تک جلسے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس فاروق حیدر کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ نے تحریک انصاف کی رہنما عالیہ حمزہ اور عمر ایوب کی جلسے کی اجازت دینے سے متعلق درخواست پر سماعت کی، جس کے دوران چیف سیکریٹری پنجاب زاہد زمان، آئی جی پنجاب عثمان انور اور ڈی سی لاہور موسیٰ رضا عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل اشتیاق خان سے استفسار کیا کہ ’ڈی سی کو درخواست دی گئی؟‘

انہوں نے جواب دیا کہ ’درخواست  کی کاپی میرے پاس ہے جو صدر پی ٹی آئی لاہور امتیاز شیخ نے ڈی سی کو کئی روز قبل دی تھی، جس میں مینار پاکستان گراؤنڈ میں 21 ستمبر کو جلسے کی اجازت مانگی گئی لیکن اجازت نہیں دی گئی۔‘

سرکاری وکیل چوہدری بلیغ الرحمٰن نے موقف اپنایا کہ ’پی ٹی آئی نے آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں جلسے میں عدلیہ اور فوج سمیت ملکی شخصیات کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔

’پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈا پور پنجاب پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، لہٰذا امن وامان برقرار رکھنے کے لیے درخواست خارج کی جائے۔‘

عدالت نے آئی جی پنجاب عثمان انور سے استفسار کیا کہ ’پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ جلسے سے پہلے ان کے رہنماؤں کو ہراساں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔‘

اس پر آئی جی نے کہا کہ ’کسی پی ٹی آئی رہنما کو ہراساں نہیں کیا جا رہا جبکہ کوئی غیر قانونی گرفتاری نہیں کی جا رہی۔‘

تاہم عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما لطیف کھوسہ کے بیٹے خرم کھوسہ نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کرکے کہا: ’آئی جی صاحب جھوٹ نہ بولیں، اب بھی ہمارے گھر کے باہر پولیس موجود ہے۔ ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔‘

اس دوران تحریک انصاف کے رہنماؤں یا وکلا نے کسی بھی غیر قانونی گرفتاری کی نشاندہی نہیں کی۔

تاہم عدالت نے آئی جی کو حکم دیا کہ کسی رہنما یا کارکن کو ہراساں نہ کیا جائے، جس پر عثمان انور نے یقین دہانی کروائی کہ ’کسی کو غیر قانونی گرفتار یا ہراساں نہیں کیا جائے گا۔‘

تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید کے والد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ کارکنوں کے گھروں پر جلسہ روکنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس طارق ندیم نے ڈپٹی کمشنر کو آج دو بجے تک جلسے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’کیوں نہ کوئی ایک جگہ مختص کر دی جائے کہ جلسہ ایک مخصوص جگہ پر ہی ہوگا۔

’یہ بات ٹھیک ہے کہ جب جلسے کی بات ہوتی ہے تو ملک جام ہو جاتا ہے۔ کوئی جنازہ جا رہا ہوتا ہے، ایمبولینس جارہی ہوتی ہے اس میں رکاوٹ آتی ہے، بیمار ہسپتال نہیں پہنچ پاتے۔ ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟دنیا کہاں کی کہاں چلی گئی ہم آج بھی اظہار رائے کی آزادی میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے ڈی سی موسیٰ رضا کو مخاطب کرکے مزید کہا کہ ’حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں،آپ کل  بھی ادھر تھے، آج بھی ادھر ہیں اور آئی جی بھی ادھر ہیں۔ ہر کسی نے کسی عہدے پر ہمیشہ نہیں رہنا، کوئی ایسا کریڈٹ لے لیجیے کہ یاد رکھا جائے کہ دو سربراہوں نے یہ فیصلہ کیا، جس سے مسئلہ حل ہوگیا۔‘

مقامی وکیل ندیم سرور نے بھی تحریک انصاف کا لاہور میں جلسہ روکنے کی درخواست دائر کر رکھی تھی، جو عدالت نے نمٹا دی ہے۔

اس سے قبل پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے امن وامان خراب کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہونی چاہیے اور ماحول خراب کرنے سے روکنا حکومت کا فرض ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہمیں عدالتوں کا احترام ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق جلسے کی اجازت سے متعلق فیصلہ ڈی سی لاہور نے کرنا ہے، لیکن تحریک انصاف پر امن جلسوں کی روایت نہیں رکھتی اور نہ قانون کی پاسداری کو خاطر میں لاتی ہے۔ جلسے سے پہلے ہی جس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔‘

بقول عظمیٰ بخاری: ’جس طرح علی امین گنڈا پور نے اسلام آباد جلسے میں وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اعلیٰ شخصیات کے خلاف زبان استعمال کی اور پنجاب پر حملہ آور ہونے کا دعویٰ کیا، اس کے مطابق ان کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ وہ سرکاری مشینری کے ذریعے پنجاب میں امن وامان خراب کرنے آئیں گے تو انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پر امن جلسے جمہوریت کا حسن ہیں لیکن سیاسی مقاصد کے لیے امن وامان خراب کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہونی چاہیے۔ ماحول خراب کرنے سے روکنا حکومت کا فرض بھی ہے اور اختیار بھی ہے۔ یہ (پی ٹی آئی) معاہدے کر کے بھی قانون توڑنے سے باز نہیں آتے۔‘

وزیر اعظم کے مشیر عقیل ملک نے جمعرات کی شب اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’تحریک انصاف کو لاہور جلسے کی اجازت ملنا مشکل ہے کیونکہ انہوں نے اسلام آباد جلسے کے دوران معاہدے کی خلاف ورزی کی۔‘

پنجاب کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بچڑ کے مطابق: ’ہم قانونی طریقے سے اجازت مانگ رہے ہیں، جلسہ کرنا ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن یہ فارم 47 کی پیداوار حکومت فسطائیت پر اتر آئی ہے۔

’ہم عدالتی احکامات کے پابند ہیں اور پانچ بجے تک دیکھتے ہیں کہ ڈی سی کیا فیصلہ کریں گے۔ اس کے بعد ہم اپنا اگلا لائحہ عمل تیار کریں گے۔‘

پی ٹی آئی کے رہنما ملک احمد خان نے کہا ہے کہ ’ڈی سی اجازت دیں نہ دیں، ہم لاہور میں کل جلسہ ضرور کریں گے۔ اس کا لائحہ عمل بنا رہے ہیں، کل سب کو معلوم ہوجائے گا کہ جلسہ کیسے کیا جاتا ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت یہ اعلان کر چکی ہے کہ این او سی ملے یا نہ ملے، لاہور میں 21 ستمبر کو جلسہ ضرور کیا جائے گا، تاہم ابھی تک مینار پاکستان گراؤنڈ میں اس جلسے کی تیاریوں کے حوالے سے اقدامات دکھائی نہیں دیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست