پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسلام آباد میں جلسے کے بعد پارٹی رہنماؤں کی گرفتاریوں کے باوجود لاہور میں جلسہ کرنے اور جلد ملک بھر میں احتجاج کا عندیہ دیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما ذوالفقار (زلفی) بخاری نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسلام آباد جلسے کے دوران اور بعد میں جس طرح حکومت نے گرفتاریاں شروع کی ہیں ان کے خلاف جلد ہی ملک بھر میں احتجاج کی تیاری کر رہے ہیں، کسی کی اجازت ہو یا نہ ہو۔‘
پنجاب میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بچھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور میں مینار پاکستان جلسے کی تیاریاں جلد شروع کر دی جائیں گی۔ ہم 22 ستمبر کو جلسہ کریں گے اگر انتظامیہ نے اجازت نہ بھی دی تو بھی جلسہ ضرور ہوگا۔‘
دوسری جانب مشیر وزیر اعظم رانا ثنااللہ نے حال ہی میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’تحریک انصاف کو مزید بد امنی نہیں پھیلانے دیں گے۔ کیونکہ یہ اسرائیلی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ علی امین گنڈا پور نے لاہور جلسے میں آنے کا جو چیلنج کیا ہے۔ لاہور تو کیا خیبر پختونخوا کی حدود سے نکل کر دکھائیں۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان خان نیازی کے مطابق ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) لاہور کو جلسے کے لیے دی گئی درخواست کا جواب نہیں دیا گیا۔
’اس لیے ایک دو دن میں 22 ستمبر کو جلسے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تحریک انصاف نے آٹھ فروری کے بعد ملنے والی سیاسی سپیس اسلام آباد جلسے میں نامناسب بیانیے کی وجہ سے ختم کر لی ہے۔ اب انہیں لاہور تو کیا کہیں بھی جلسے کی اجازت ملنا مشکل ہے۔‘
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہمیں جلسے سے نہیں پی ٹی آئی والوں کی کرتوتوں سے ڈر لگتا ہے بلکہ پی ٹی آئی کے جلاؤ گھیراؤ کرنے پر کل بھی اعتراض تھا آج بھی ہے۔ اسی لیے بد امنی یا انتشار پھیلانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔‘
پی ٹی آئی رہنما ملک احمد خان بچھر نے کہا کہ ’جلسے کرنا ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے لیکن حکومت ہمیں سیاسی جدوجہد سے روکنا چاہتی ہے۔ دھاندلی سے آنے والی حکومت نے ہمارا اسلام آباد میں پر امن جلسہ ناکام کرنے کی کوشش کی لیکن ہم پر امن لوگ ہیں پر امن ہی رہیں گے۔ ہم نے 12 ربیع الأول کی وجہ سے مینار پاکستان جلسہ 15ستمبر کی بجائے تاریخ تبدیل کر کے 22 ستمبر اتوار کو کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
’اس حوالے سے تیاریوں کا جائزہ اجلاس آج منعقد کیا جارہا ہے۔ ہم نے انتظامیہ کو درخواست دے دی ہے لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ اگر ہمیں اجازت نہ بھی ملی تو ہم جلسہ ضرور منعقد کریں گے۔‘
سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام آباد جلسے کا وقت بڑھایا۔ اسی آڑ میں وہاں اسٹیبلشمنٹ اور مخالف سیاسی قیادت کے خلاف نازیبا بیانات کی وجہ سے کارروائی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت لاہور تو کیا انہیں کہیں بھی جلسے کی اجازت نہیں دے گی۔‘
معاہدے کی خلاف ورزی پر پہلے کسی جماعت کے خلاف کارروائی ہوئی؟
پنجاب سمیت ملک بھر میں جب بھی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت وقت یا طاقتور حلقوں کے خلاف جلسے جلوس ہوئے تو دفعہ 144 یا تین یا 16 ایم پی او (نقص امن) کے تحت مقدمات درج ہوئے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلمان غنی کے بقول، ’انتظامیہ یا عدالت کی اجازت کے تحت کسی معاہدے کی خلاف ورزی پر جلسہ کرنے والوں کے خلاف ایسی کارروائی پہلے نہیں ہوئی۔ لیکن مولانا مودودی کے دور میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن اللہ بخش کی پولیس فائرنگ سے موت پر لاہور میں جلسہ ہوا تھا۔ جس میں پولیس نے شرکا کو منتشر اور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں جلسے کے شرکا سے پولیس جھڑپ اور جلسے میں علی امین گنڈا پور سمیت دیگر رہنماؤں کی جانب سے انتشار کے بیانیے نے حکومتی کارروائی کو دعوت دی ہے۔ پھر یہ بھی پہلی بار ہوا کہ اسلام آباد میں اجازت نامے کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کا قانون بن چکا ہے۔ قانون تو اس سے پہلے بھی موجود ہیں لیکن وہ اس طرح جلسہ کرنے والوں کو پابند نہیں کرتے جیسے اس قانون کے تحت کیا گیا ہے۔‘
تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر دور میں حکومت وقت کے خلاف اپوزیشن کے احتجاج یا جلسوں کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ خود پی ٹی آئی کے دور میں بھی اپوزیشن جماعتوں کو کھلے عام جلسے جلوسوں یا احتجاج کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آئینی اور قانونی حق کے تحت سب اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے انداز میں سیاسی جدوجہد کرتی رہی ہیں۔
’نو مئی کے بعد واضح ہو گیا کہ پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی کہ وہ حسب عادت قانون توڑیں اور سب کو پکڑ لیا جائے۔ تاکہ جب عمران خان کو فوج کی تحویل میں دیا جائے تو کوئی بولنے یا احتجاج کرنے والا ہی نہ ہو۔‘
سلمان غنی نے کہا کہ ’اس سے پہلے کئی بار جب حکومت وقت خاص طور پر جب مارشل لا لگے رہے اس دوران مخالفین کو اس طرح جلسوں کو اجازت نہیں دی گئی۔ ویسے تو ہر سیاسی جماعت کا جلسہ مقررہ وقت پر ختم نہیں ہوتا۔ لیکن ماضی میں بھی احتجاج یا ریلیوں پر پابندی کے دوران کارروائی ضرور ہوتی رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ افسوس پی ٹی آئی نے آٹھ ستمبر کو خود کو نو مئی کے بعد سیاسی جمود سے نکالنے کی کوشش کا فائدہ نہ اٹھایا بلکہ خود کو ریڈ زون میں لے گئی۔ کاش وہ ریڈ لائن کراس نہ کرتی کیونکہ اس کو اپنی سیاسی سپیس مل گئی تھی وہ اسلام اباد کے بعد لاہور اور لاہور کے بعد دیگر شہروں تک اپنی سیاسی سرگرمیاں پھیلا سکتی تھی۔ اس کو سیاسی اور عوامی کردار کی ادائیگی کا موقع ملا مگر اس نے خود گنوا دیا۔
’یہاں یہ سوال بھی جنم لیتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جلسے سے ایک دن پہلے بیان دیا کہ علی امین گنڈا پور کو ان کی مکمل سرپرستی حاصل ہے لہذا یہ گمان کیا جارہا ہے کہ ان کے بیانیے کو عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔‘