پی ٹی آئی جلسے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی: عظمیٰ بخاری

پاکستان تحریک انصاف کے 21 ستمبر کو لاہور کے علاقے کاہنہ میں ہونے والے جلسے کے حوالے سے جہاں مسلم لیگ نواز اس کو ایک ناکام شو قرار دے رہی ہے، وہیں پی ٹی آئی کے خیال میں یہ ایک کامیاب شو تھا۔

21 ستمبر، 2024 کی اس تصویر میں پاکستان تحریک انصاف کے لاہور کے علاقے کاہنہ میں ہونے والے جلسے کا ایک منظر(اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کے 21 ستمبر کو لاہور کے علاقے کاہنہ میں ہونے والے جلسے کے حوالے سے جہاں مسلم لیگ نواز اس کو ایک ناکام شو قرار دے رہی ہے، وہیں پی ٹی آئی کے خیال میں یہ ایک کامیاب شو تھا۔

جبکہ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس جلسے کے حوالے سے حکومتی اقدامات ملک میں جمہوریت اور سیاست کے حوالے سے مزید منفی رجحانات کو جنم دیں گے۔

پی آٹی آئی کو پنجاب حکومت نے لاہور میں جلسے کے لیے مشروط اجازی دی۔ جلسہ گاہ بھی پی ٹی آئی کی مرضی کی نہ ملی اور تو اور جلسے کے اختتام کا وقت شام چھ بجے مقرر کیا گیا اور چھ بجتے ہی جلسہ گاہ کی بجلی منقطع ہو گئی اور مائیک بند کر دیے گئے۔

یہ سب کس کی جانب سے کیا گیا یہی جاننے کے لیے ہم نے مسلم لیگ ن کی رہنما اور پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری سے رابطہ کیا۔

عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’لاہور کے جلسے میں ہم نے پی ٹی آئی کے خلاف کیا کاروائی کی؟

’ان کے اپنے ڈی جے نے میوزک چلانے سے انکار کر دیا، پولیس اور انتظامیہ نے جا کر ان سے کہا کہ جلسے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔

’آپ برائے مہربانی جلسہ ختم کر دیں اور سب اچھے بچوں کی طرح لائن میں نیچے اتر کر جلسہ گاہ سے باہر چلے گئے۔ اس میں کیا کارروائی ہوئی؟‘

ان کا مزید کہنا تھا: مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی، کسی کا ٹریک ریکارڈ پی ٹی آئی والا نہیں ہے ان پارٹیوں کے لوگ اسلحے کے ساتھ نہیں آتے۔ ان جماعتوں کے لوگ جلسوں میں اشتعال دلوا کر گندی گفتگو نہیں کرتے۔

’دوسری جماعتوں کے جلسوں میں ایک تہذیب اور طریقہ کار ہوتا ہے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت نہیں ہے اور کل بھی اے کے 47 جیسی رائفل سے ایک وزیر اعلیٰ گاڑیاں توڑتا پایا جائے تو اس کے بعد کسی کو لگے کہ یہ سیاسی جماعت ہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔’

عظمیٰ بخاری نے مزید کہا ’پی ٹی آئی کے خلاف ہم نے کوئی کاروائی نہیں کی یہ لوگ موٹر وے پر بھی خلاف ورزیاں کرتے رہے اور لوگوں کو مارتے اور پولیس والوں کے سر پھاڑتے ہوئے آئے ہیں انہوں نے خود انتظامیہ سے معاہدہ کیا تھا کہ یہ وقت کی پابندی کریں گے۔ یہ معاہدہ نہ کرتے کہتے انہیں منظور نہیں۔

’ان کے خلاف جو کاروائی ہونی چاہیے تھی وہ تو ہوئی ہی نہیں۔‘

ادھر پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات پنجاب شوکت بسرا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کل کا جلسہ تمام تر حکومتی فسطائی ہتھکنڈوں کے باوجود کامیاب تھا 90 فیصد لوگ تو سڑکوں پر ہی رہے اور دس فیصد لوگ 15 کلومیٹر سے زائد فاصلہ پیدل طے کر کے جلسہ گاہ پہنچے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم نے جلسہ وقت پر اس لیے ختم کیا کہ ہم حکومت کی سازش کو ناکام بنانا چاہتے تھے کیونکہ حکومت چاہتی تھی کہ ہمارے کارکنان تحمل کا دامن چھوڑ دیں اور حکومت کو ایک اور نو مئی کا موقع مل جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب حکومت نے بجلی منقطع کروا دی اور مائیک بند کروا دیے تو پی ٹی آئی کی قیادت نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے کارکنان کو منتشر ہونے کا کہا اگرچہ وہاں پر صرف آٹھ سو کے قریب پولیس والے موجود تھے۔

’اگر ہماری طرف سے تھوڑی سی بھی مزاحمت تو شاید پولیس والے خود اپنی وردیاں پھاڑ کر یا خود کو گولی مار کر الزام پی ٹی آئی پر لگا دیتے اور ایک اور ایکشن شروع ہو جاتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ روز پہلے مولانا فضل الرحمٰن نے مینار پاکستان پر جلسہ کیا، تحریک لبیک اور جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں دھرنے دیے اور ریڈ زون تک پہنچیں، ان کو کھلی اجازت دی گئی، لیکن پی ٹی آئی کے حوالے سے تمام تر فسطائی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

’حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں اور ملک کو ایک آمریت کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔‘

علی امین گنڈا پور کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک صوبے کے منتخب وزیر اعلیٰ ہیں اور ان کو جلسے میں شرکت سے روکنے کے لیے اٹک کے پل سے لے کر لاہور تک ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔‘

ان کے مطابق: ’عمران خان کا حکم تھا کہ جلسہ گاہ میں پہنچیں اس لیے وہ صرف ان رکاوٹوں کو ختم کرتے رہے اور انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا آپ بے شک فوٹیج نکال کر دیکھ لیں۔‘

سیاسی تجزیہ کار مبشر بخاری کی رائے میں: ’مارشل لا حکومتوں کے دوران سیاسی جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جاتے تھے جن میں سیاسی ورکروں کی گرفتاریاں، راستوں کی بندش اور جلسوں کی اجازت نہ دینا وغیرہ شامل تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’وہ سیاسی جماعتیں جنہیں طالع آزماؤں کے زیر اثر پنپنے کا موقع ملا جب وہ طاقت میں آئیں تو انہوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے۔

’جیسے کہ پاکستان تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی تو انہوں نے سیاسی مخالفین کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے ان پر جھوٹے مقدمات بنوائے اور جلسوں کے لیے رکاوٹیں بھی قائم کیں جیسے کہ مریم نواز کے جلسے میں 2021 میں منڈی بہاؤالدین کی جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دیا گیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’2011 کے بعد پی ٹی آئی نے جمہوری اور سیاسی رویہ ترک کر دیا یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں منفی رحجانات اور عدم برداشت کے رویوں نے جنم لیا۔

’پی ٹی آئی ابھی بھی سیاسی مفاہمت کی بجائے نفرت کی سیاست کر رہی ہے لیکن دوسری جمہوری جماعتوں کو اس کا اثر نہیں لینا چاہیے اور اپنا جمہوری تشخص برقرار رکھنا چاہیے۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ نواز کی حکومت سے ان اقدامات کی توقع نہیں تھی جو انہوں نے اسلام آباد کے آٹھ ستمبر اور لاہور کے جلسے میں کیے۔

’یہ اقدامات اس بات کا تاثر دیتے ہیں کہ مسلم لیگی قیادت یا تو پی ٹی آئی کی مقبولیت سے خائف ہے یا کسی نظر نہ آنے والی طاقت کے زیر اثر غیر جمہوری رویہ اپنا چکی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’لاہورکے باہر ایک مویشی منڈی کو جلسہ گاہ کی شکل دینا، مقامی قیادت کی گرفتاریاں اور جلسے کے اوقات کار ایک شادی ہال میں شادی کی تقریب کی طرز پر طے کرنا اور وقت ختم ہوتے ہی بجلی منقطع کردینا اور مائیک اتار لینا مسلم لیگ نواز کے جمہوری رویے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔‘

انہوں نےکہا: ’بظاہر یہ لگتا ہے کہ مسلم لیگ نواز نے طے کر لیا ہے کہ اب انہوں نے خیبر پختونخوا میں اس وقت تک کوئی جلسہ نہیں کرنا جب تک وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور علی امین گنڈا پور وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیں۔‘

مبشر بخاری کے مطابق: ’یہ طرز عمل دوسری سیاسی قوتوں کو بھی ترغیب دے گا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے جمہوری اور سیاسی سرگرمیوں میں اس طرح کی رکاقوٹیں قائم کریں اگر وہ اقتدار میں ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست