صحرائی جنگجوؤں سے جدید فوج تک کا سفر: سعودی افواج کے قیام کی داستان

سعودی عرب کی فوج کی تشکیل کا ابتدائی مرحلہ اس کی تنظیم سازی اور معیار پر مرکوز تھا۔ فوج میں شہری اور صحرائی دونوں آبادیوں سے سپاہی بھرتی کیے گئے جنہوں نے ایک متحد فوجی قوت کی بنیاد رکھی۔

سعودی فوج کا یہ سفر گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تلواروں اور نیزوں سے لیس وفادار سپاہیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ پر مشتمل تھا (ایس پی اے)

سعودی عرب کی مسلح افواج کی تاریخ شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں مملکت کی بنیاد سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ بے پناہ چیلنجز اور مشکلات کا وقت تھا لیکن فوج کی غیر متزلزل وفاداری اور ہمت نے ایک محفوظ اور متحد قوم کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔

 یہ سفر گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تلواروں اور نیزوں سے لیس وفادار سپاہیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ پر مشتمل تھا جن کا مشن خوف کو مٹانا اور جزیرہ نما عرب کو متحد کرنا تھا۔ شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں ان سپاہیوں نے کئی پہاڑوں، میدانوں اور وادیوں سے گزر کر مملکت کے متنوع علاقوں کو متحد کیا۔

 سعودی عرب کی مسلح افواج کی بنیاد

 سعودی عرب کی فوج کی تشکیل کا ابتدائی مرحلہ اس کی تنظیم سازی اور معیار پر مرکوز تھا۔ فوج میں شہری اور صحرائی دونوں آبادیوں سے سپاہی بھرتی کیے گئے جنہوں نے ایک متحد فوجی قوت کی بنیاد رکھی۔ جدہ گیریژن کی طرح فوجی چھاؤنیوں کا قیام اس عمل میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔

 شاہ عبدالعزیز کی دور اندیش قیادت میں سعودی عرب کی فوج نے تیزی سے ترقی کی۔ فوج کے باقاعدہ یونٹوں کی تشکیل میں پیادہ، توپ خانہ اور مشین گن رجمنٹ شامل تھیں جو اہم پیشرفت کی عکاس تھی۔ ملٹری افیئر ڈائریکٹوریٹ کے قیام نے سعودی فوج کے ڈھانچے اور انتظامیہ کو مزید مستحکم کیا۔

 جوں جوں سعودی عرب کی فوج میں اضافہ ہوتا گیا، ایک زیادہ جامع دفاعی نظام کی ضرورت واضح ہوتی گئی۔ دفاعی ادارے کی تشکیل، فوجی یونٹوں کی تنظیم نو اور ملٹری سکول کا قیام اس سمت میں اہم اقدامات تھے۔ جدید ہتھیاروں، نقل و حمل اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے سے فوج کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوا۔

 وزارت دفاع کا قیام

 دفاع کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی نے ایک الگ وزارت کے قیام کی ضرورت اجاگر کی۔ نومبر 1943 میں وزارت دفاع کا قیام عمل میں آیا جو سعودی عرب کی مسلح افواج کی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ہے۔

 یکے بعد دیگرے سعودی قیادت نے مسلح افواج کی ترقی میں سرمایہ کاری جاری رکھی۔ خصوصی افواج کے قیام، جدید ہتھیاروں کے حصول اور فوجیوں کی تربیت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ سعودی عرب کی مسلح افواج ایک مضبوط قوت بن ابھری۔

شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادوں اور ان کے بھی بعد کی قیادت نے سعودی فوج کی حمایت اور ترقی جاری رکھی اور مملکت کی حفاظت کے لیے خصوصی دستے بنائے اور انہیں جدید ترین ہتھیاروں اور بہترین تربیت یافتہ فوجیوں سے لیس کیا۔ .

 بری افواج

 اکتوبر 1962 میں سعودی فوج کے جدید دور کا آغاز ہوا۔ شاہ فیصل نے شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز کو وزیر دفاع اور ہوابازی اور انسپکٹر جنرل مقرر کیا۔

شہزادہ سلطان کی قیادت میں بری فوج میں اہم اصلاحات نافذ کی گئیں۔ دسمبر 1976 میں سعودی عرب کی فوج کا نام تبدیل کر کے رائل سعودی لینڈ فورسز رکھا گیا۔

 فضائی افواج

شاہ عبدالعزیز کے دور سے سعودی عرب کی ایک اہم ترجیح ملک کی فضائی حدود کو محفوظ بنانا تھا۔ فضائی دفاعی صلاحیت کی طرف پہلا قدم 1929 میں رکھا گیا جب مملکت نے برٹش ویسٹ لینڈ لڑاکا طیارے حاصل کیے۔ ابتدا میں یہ طیارے بنیادی طور پر مشرقی علاقے میں نگرانی اور جاسوسی کے مشن کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

فضائی طاقت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے شاہ عبدالعزیز نے 1930 میں فضائیہ کو جدہ منتقل کرنے کا حکم دیا اور پہلا سعودی ایوی ایشن سکول قائم کیا جس نے پائلٹوں کی تربیت اور طیاروں کی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز کی اور اس طرح مملکت کی مستقبل کی ہوا بازی کی صلاحیتوں کی بنیاد رکھی گئی۔

مملکت کے قیام کے بعد شاہ عبدالعزیز نے فضائیہ کو مزید ترقی دینے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ تربیت یافتہ اہلکاروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے برطانوی حکومت سے سعودی فضائی عملے کو تربیت فراہم کرنے کی درخواست کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر دفاع اور ہوابازی شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز کی قیادت میں فضائیہ میں اہم تبدیلیاں کی گئیں۔ اسے جدہ سے ریاض منتقل کر دیا گیا اور بعد میں اس کا نام رائل سعودی ایئر فورس ہو گیا۔

 ایئر ڈیفنس

 مملکت کی ابھرتی ہوئی ضروریات اور اس کے اہم اثاثوں کی حفاظت کی اہمیت کے پیش نظر سعودی عرب نے زمینی افواج کے اندر آرٹلری کور کے ایک حصے کے طور پر ایک ایئر ڈیفنس فورس قائم کی۔

ایئر ڈیفنس کے بڑھتے ہوئے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے 1984 میں ایک شاہی فرمان جاری کیا گیا جس میں فضائی دفاع کو ایک خصوصی اور آزاد فورس کے طور پر نامزد کیا گیا جسے سرکاری طور پر رائل سعودی ایئر ڈیفنس فورسز کا نام دیا گیا۔

 بحری افواج

 خلیج عرب اور بحیرہ احمر کے ساتھ سعودی عرب کی وسیع ساحلی پٹی کے دفاع اور مملکت کے علاقائی پانیوں کی حفاظت کے لیے ایک بحری فوج کا قیام ایک لازمی ضرورت بن گیا۔ 1957 میں رائل سعودی نیول فورسز کا قیام عمل میں آیا جسے ابتدائی طور پر صرف بحریہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

 آج وزارت دفاع کو اپنی مختلف افواج اور شاخوں کے ساتھ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی غیر متزلزل حمایت حاصل ہے۔ وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان بن عبدالعزیز کی رہنمائی میں وزارت دفاع سعودی مسلح افواج کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

اس حوالے سے وزارت دفاع کے ترقیاتی منصوبے میں ایک نئے وژن اور حکمت عملی، ٹارگٹڈ آپریشنل ماڈل، ایک تنظیمی ڈھانچہ، گورننس کے اصول اور انسانی وسائل کی ضروریات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

قومی دفاعی حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگ، اس جامع منصوبے کا مقصد سعودی مسلح افواج کی مسلسل جدت کاری اور اسے مزید موثر بنانا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ