برکس کی رکنیت پاکستان کے لیے کتنی فائدہ مند؟

پاکستان نے گذشتہ سال برکس کی رکنیت کی غرض سے درخواست دی تھی اور روس اسلام آباد کی حمایت کا عندیہ بھی دے چکا ہے، تاہم انڈیا اس کی مخالفت کر سکتا ہے۔

11 ستمبر، 2024 کو برکس - رشیا 2024 ۔ آر یو کی فوٹو ہوسٹ ایجنسی کی فراہم کردہ اس تصویر میں برکس ممالک کے سینیئر عہدے دار سینٹ پیٹرز برگ میں برکس اجلاس کے موقعے پر (فوٹو ہوسٹ ایجنسی برکس – رشیا۔ آر یو/اے ایف پی)

پاکستان نے نومبر 2023 میں (برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ) برکس ممالک کی تنظیم کا رکن بننے کے لیے باقاعدہ درخواست دے رکھی ہے اور اس کا ذکر ایک مرتبہ پھر گذشتہ ہفتے اس وقت ہوا جب روسی نائب وزیراعظم الیکسی اوورچوک نے اسلام آباد دورے کے دوران تنظیم میں شمولیت کے سلسلے میں اسلام آباد کی حمایت کا عندیہ دیا۔

روس کے نائب وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان کو برکس کا رکن بنانے کے لیے رکن ممالک میں اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔

برکس ممالک کی تنظیم کیا ہے اور پاکستان اس کا رکن کیوں بننا چاہتا ہے اور برکس کا رکن بننے سے پاکستان کی معیشت کو کیا فائدہ ہو گا؟

برکس ممالک کی اہمیت

دنیا کی سرکردہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے بلاک برکس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں جب کہ جنوری 2024 میں سعودی عرب، ایران، ایتھوپیا، مصر اور یو اے ای کو بھی رکنیت دینے کا اعلان کیا گیا۔

ساڑھے تین ارب افراد پر مشتمل مجموعی آبادی کے برکس ممالک نے حالیہ برسوں میں عالمی سیاسی اور معاشی منظر نامے پر اہمیت حاصل کی ہے۔

ان ممالک کا عالمی معیشت میں حصہ 28 فیصد ہے، جب کہ ان کی معیشت 28.5 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔

عالمی بینک کے مطابق چین معاشی اعتبار سے برکس ممالک کا سب سے بڑا رکن ہے، جس کی معیشت 17.96 کھرب ڈالرز ہے، جب کہ انڈیا اس سلسلے میں 3.39 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دوسرا بڑا رکن ہے۔

معیشت کے حجم کے اعتبار سے روس برکس کا تیسرا بڑا ملک ہے، جس کی معیشت 2.24 کھرب ڈالرز ہے، جب کہ 1.92 کھرب ڈالر کی معیشتوں کے ساتھ برازیل اور سعودی عرب چوتھے نمبر پر ہیں۔

ایسے میں محض 378 ارب ڈالرز کی معیشت والے ملک پاکستان کی برکس میں کیا اہمیت ہو گی؟

سابق نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تمام تر سیاسی مفادات سے ہٹ کر پاکستان برکس کے تمام ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے اور تنظیم کے اکثر اراکین نے اسلام آباد کی رکنیت کی حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔‘

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر منور حسین کے مطابق موجودہ عالمی سیاسی منظر نامے میں بین الحکومتی تنظیموں کی اپنی اہمیت ہے اور پاکستان ان تنظیموں کو درمیانے درجے کی طاقت کے حصول کے لیے نظر انداز نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تین سیاسی افق نظر آ رہے ہیں، جن میں امریکہ کی سیاسی، معاشی اور دفاعی طاقت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور طاقت کے نئے مراکز پیدا ہو رہے ہیں، جن میں چین، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

’انڈیا دوسرے گروپ میں کہیں نچلے درجے پر ہے، جب کہ تیسرے نمبر پر انڈونیشیا، پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور مصر کو دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔‘

ڈاکٹر منور حسین کا کہنا تھا کہ برکس کی رکنیت کے حصول کے لیے پاکستان کو جیو پولیٹیکل چیلنجز درپیش ہیں اور اسے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا دہلی کی جانب سے کرنا پڑ سکتا ہے۔

’انڈیا شروع سے، خصوصاً نریندا مودی کے حکومت کے دوران، کوشش کرتا رہا ہے کہ پاکستان کو خطے اور خطے سے باہر تنہا کرنے کی کوشش کی جائے۔

’جب سے پاکستان ایس سی او کا رکن بنا ہے انڈیا اسلام آباد کو دبانے کی کوشش کرتا نظر آیا ہے۔‘

ان کے خیال میں پاکستان کو ایک دوسرا چیلنج بھی درپیش ہے، جو اس کا بیانیہ ہے، جسے برکس کا رکن بننے کے لیے بنانا ضروری ہے۔

ڈاکٹر منور حسین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ برکس ممالک کے مفادات کے مطابق پاکستان کو اپنے مفادات طے کرنے کا چیلنج ہے۔

’پاکستان کے مغرب کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں اور یورپ کے ساتھ تجارت کا ایک بڑا حجم ہے، جب کہ مغربی ممالک برکس کو اپنا مخالف گروپ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو ان کی عالمی طاقت کو کم کرنے کو کوشش کر سکتا ہے۔‘

ان خیال میں امریکہ اور یورپی یونین پاکستان کی برکس میں شمولیت کو مختلف فورمز کے ذریعے روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر منور حسین کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے خیال میں برکس کی صدارت روس کے پاس آنا ایک سٹریٹیجک ونڈو ہے، جب کہ ایران، سعودی عرب اور یواے ای اس کے رکن بننے کی سپورٹ کریں گے اور چین کے ساتھ بیشتر عالمی امور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے سینیئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’برکس کی رکنیت حاصل کرنے کی غرض سے ضروری موڈیلیٹیز پوری کی جا رہی ہیں۔

’برکس کی رکنیت کا طریقہ کار کافی طویل اور دشوار ہے اور ابھی مزید دو تین اور فورمز کو جوائن کرنا پڑے گا، جس کے بعد ہی پاکستان کی برکس اراکین کی حمایت سے رکنیت حاصل ہر سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برکس ممالک کی مشترکہ کرنسی یا پیٹرو یوآن

برکس ممالک کا آئندہ اجلاس اکتوبر 2024 میں روس کے شہر کازن میں منعقد ہو رہا ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق تنظیم کے اراکین اس اجلاس میں مشترکہ کرنسی ’پیٹرو یوآن‘ کے اجرا پر غور کر سکتے ہیں۔

پیٹرو یوآن کے اجرا سے عالمی معیشت میں ڈالر کی حکمرانی کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔

تیل پیدا کرنے والے بڑے ملک سعودی عرب نے پراجیکٹ ایم بریج میں شمولیت اختیار کر لی ہے، جسے برکس ممالک نے بین الاقوامی ڈیجیٹل کرنسیوں کی ادائیگیوں کے لیے ایک بینک کے طور قائم کیا ہے۔

سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ تیل کی ادائیگیوں کے لیے موجودہ ڈالر کے نظام کا متبادل متعارف کرنے اور پیٹرو یوآن کے استعمال پر غور کر سکتا ہے۔

معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روس کازن سمٹ کو تیل کی ادائیگیوں کے لیے پیٹرو یوآن یا برکس ممالک کی مشترکہ کرنسی کے اجرا کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

چیئرمین پاکستان بزنس کونسل احسان علی ملک نے کہا کہ دنیا میں یورو کی صورت میں متبادل کرنسی سسٹم تو موجود ہے لیکن یورپی ممالک بھی عام طور پر امریکی اثر میں رہتے ہیں۔

’یہی وجہ ہے کہ برکس ممالک امریکی ڈالر کی ادائیگیوں سے بچنے کی غرض سے ایک بالکل الگ تھلگ کرنسی متعارف کروانا چاہ رہے ہیں۔‘

احسان کا کہنا تھا کہ برکس ممالک چینی کرنسی رینمینبی کے اجرا پر بھی غور کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ کرنسی یا پیٹرو یوآن کے جاری ہو جانے کی صورت میں پاکستان کی ایران کے ساتھ تجارت میں کافی حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

’تاہم اس میں پاکستان کو بینکنگ چینلز میں دشواریاں پیش آ سکتی ہیں کیونکہ بیشتر بینک نیویارک میں ڈالرز کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔‘

احسان نے کہا کہ مشترکہ کرنسی کے ذریعے حکومتیں تو آپس میں تجارت کر سکتی ہیں لیکن نجی شعبے کے لیے اس میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔

’پاکستان ایران سے تیل اور گیس حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، جس کے لیے تہران گلوبل کرنسی کا مطالبہ کرے گو، جو اسلام آباد کے پاس نہیں کیونکہ ہماری 60 سے 70 فیصد آمدن امریکہ کو ایکسپورٹس کر کے امریکی ڈالرز کی صورت میں ہوتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ڈالر کو تیسری کرنسی میں تبدیل کرنا پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہو گا اور اس لیے مشترکہ کرنسی سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ ہونے کا امکان نہیں۔

’مشترکہ کرنسی سے فائدہ اٹھانے کی خاطر پاکستان کو پہلے اپنی دو طرفہ تجارت کو بڑھانا ہو گا۔‘

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں پاکستان کے سابق سفیر منظور احمد نے کہا کہ معاشی اعتبار سے برکس کے فوائد کے بارے میں غیر یقینی پائی جاتی ہے اور مستقبل قریب میں اس ے کوئی واضح اثرات نظر نہیں آ رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا