آئینی ترامیم پر مولانا کتنے راضی؟

نوشتہ دیوار یہ ہے کہ آئینی ترامیم تو ہونی ہیں، اب مولانا اس کا حصہ بنتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ مولانا دل میں تو کر چکے ہیں بس زبان پر لانا باقی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن 13 اکتوبر 2019 کو پشاور میں ’آزادی مارچ‘ سے قبل اپنے کارکنان کو خراج پیش کرتے ہوئے (اے ایف پی)

ویسے تو مولانا فضل الرحمٰن ہمیشہ ہی ملکی سیاست پر چھائے رہتے ہیں لیکن گذشتہ کئی ہفتوں سے تو وہ سیاسی افق پر حاوی ہو چکے ہیں۔

سیاست کے گرو آصف علی زرداری ہوں یا وزیراعظم شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یا پھر ’طاقتور‘ وزیر داخلہ محسن نقوی، سب کئی ہفتے مولانا کے گھر حاضری دیتے رہے لیکن وہ حاضری قبول نہ ہو پائی۔

حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس کئی مرتبہ بلایا، پھر ملتوی کیا، پھر بلوایا اس امید کے ساتھ کہ مولانا مان جائیں گے لیکن مولانا نہ مانے حتیٰ کہ آصف علی زرداری نے اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ جوڑ کر کہا کہ مولانا اب بس کر یں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی تقریباً منت سماجت والے الفاظ ہی استعمال کیے۔

ترامیم پر مولانا کیوں نہیں مانے؟

اپنے سابق اتحادیوں صدر زرداری اور شہباز شریف کو انہوں نے کیوں اتنا ٹف ٹائم دیا کہ حکومت کو آئینی ترامیم عارضی طور پر ملتوی کرنی پڑیں، جو کہ کسی بھی حکومت وقت کے لیے باعث شرمندگی ہے۔

کہا یہ گیا کہ جو حکومت آئینی ترامیم کا اعلان کر کے منظور نہیں کروا سکتی وہ حکومت کیا چلائے گی؟ بہرحال مولانا کی ناں کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔

ایک تو یہ ہے کہ صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف تک اور پیپلز پارٹی کے وفود سے لے کر مسلم لیگ ن کے سینیئر وزرا تک سب ان سے ملنے گئے اور حمایت کی درخواست تو کی لیکن مجوزہ آئینی ترامیم کی جس دستاویز پر حمایت درکار تھی، وہ شیئر ہی نہیں کیا گیا۔ کل ووٹنگ ہونی تھی اور ایک رات پہلے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک ’کالا لفافہ‘ مولانا کے پاس بھجوایا، جس میں مجوزہ آئینی ترامیم کا تذکرہ تھا۔

مولانا سے کہا گیا کہ آپ نے صبح اس آئینی ترمیم کی حمایت کرنی ہے۔ مولانا کے بقول وہ دستاویز پڑھ کر انہوں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ ’بنیادی حقوق‘ کو صلب کرنے جیسی ترامیم کی اگر انہوں نے حمایت کر دی ’تو ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔‘

آئینی ترامیم پر حکومتی دستاویز کی من و عن حمایت نہ کرنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مولانا صاحب انتخابات کے بعد سے اپنی سابق اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے شدید ناراض ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ساڑھے تین سال ان جماعتوں نے عمران خان کے خلاف جے یو آئی کی سٹریٹ پاور کو استعمال کیا لیکن اقتدار میں آتے ہی مولانا کی طرف پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

مولانا آج بھی سمجھتے ہیں کے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ان کے مینڈیٹ کو چوری کیا گیا لیکن ان کی اتحادی جماعتوں نے اس پر منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا۔

اسی لیے مولانا کا خیال یہ ہے کہ اب جب کہ انہوں نے ایک اصولی موقف اختیار کر کے حزب اختلاف کی گدی سنبھال لی ہے تو کیوں ان لوگوں سے دوبارہ ہاتھ ملائیں، جنہوں نے ہاتھ بڑھانے کے جواب میں کل کو انہیں آستین پکڑوا دی تھی۔

بہرحال یہ تو مولانا کے انکار کی وجوہات تھیں۔ اب اگر موجودہ حالات کی بات کی جائے تو حکومت تقریباً ہر اس ترمیم کو نکال چکی ہے جس پر مولانا کو اعتراض تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب اصولی طور پر مولانا فضل الرحمٰن آئینی عدالت کے قیام کی حمایت پر مان چکے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جب ان کے پاس آئے تو بتایا کہ ’مولانا آپ نے ججز کی ریٹائرمنٹ بڑھانے کی مخالفت کی تو ہم نے وہ ارادہ ترک کر دیا، آپ نے ججز کی تعداد میں اضافے کی مخالفت کی تو ہم اس پر بھی آپ کا موقف مان گئے، اب آئینی عدالت کا قیام تو آپ کا ہی مطالبہ تھا اور ہم تو آپ کی بات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔‘

مولانا کے بقول وہ اس پر مان گئے لیکن ہماری ملاقات میں جب ان سے آئینی عدالت کے چیف جج کی عمر پر سوالات ہوئے (چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تناظر میں) تو انہوں نے کئی تجاویز دیں۔ جن کے مطابق عمر کی حد 67 سال کی جا سکتی ہے، چیف جج کے عہدے کو طے شدہ مدت (دو سے تین سال) کیا جا سکتا ہے اور سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے کسی کو بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔

اب یہ تینوں تجاویز ایسی ہیں کہ حکومتی اتحاد اور مولانا کا کسی ایک تجویز پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔

دوسری اہم بات مولانا نے یہ کہی کہ ججز کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کا اختیار لازمی ہونا چاہیے۔ اس تجویز پر بھی اتفاق رائے تقریباً ہو چکا ہے، لیکن پھر گوٹ کہاں پھنسی ہوئی ہے؟

اصل نکتہ سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا ہے جس پر مولانا ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے۔ اگرچہ انہوں نے یہ دلیل دی کہ خوف کی وجہ سے عام عدالتوں میں ججوں کے لیے دہشت گردوں کو سزائیں دینا انتہائی مشکل کام ہے کیوں کہ وہ اپنے اور خاندان کے لیے خطرات نہیں پیدا کرنا چاہتے لہذا بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سزائیں فوجی عدالتوں سے ہی دی جا سکتی ہیں، لیکن ان سطور کی تحریر تک مولانا نے فی الحال اس بات پر ہاں نہیں کی۔

اب یہ وہ واحد نکتہ رہ گیا ہے جس پر مولانا اور حکومتی اتحاد ’فی الحال‘ متفق نہیں ہو پائے۔ پیپلز پارٹی اس بارے میں یہ کہہ چکی ہے کہ سیاست دانوں کو سکیورٹی بریفنگ دے کر قائل کیا جائے کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے کی ضرورت کیوں ہے؟

بہرحال اب پیپلز پارٹی نے مولانا کے اعتراضات آن بورڈ لے کر مجوزہ آئینی ترامیم کا ایک اور مسودہ مولانا کے ساتھ شیئر کر دیا ہے اور اگر بات آگے بڑھتی ہے تو آخری اتفاق رائے کا اعلان مولانا اور بلاول اکٹھے ہی کریں گے۔

نوشتہ دیوار یہ ہے کہ آئینی ترامیم تو ہونی ہیں، اب مولانا اس کا حصہ بنتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ مولانا دل میں تو کر چکے ہیں بس زبان پر لانا باقی ہے۔

نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر