عمران خان، بشریٰ بی بی پر توشہ خانہ2 میں فرد جرم کی کارروائی ملتوی

ملزمان کی جانب سے وکیل کی تقرری نہ ہو پانے کے سبب عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی پانچ اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی 17 جولائی 2023 کو لاہور میں ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس میں اپنے ضمانتی مچلکوں کے کاغذات پر دستخط کر رہے ہیں (اے ایف پی)

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ2 کیس میں فرد جرم کی کارروائی ہفتہ پانچ اکتوبر 2024 تک ملتوی کر دی ہے۔ کیس کی سماعت سپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے کی ہے۔

عدالت نے ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ بدھ دو اکتوبر طے کر رکھی تھی۔

وکیل انتظار پنجھوتہ نے عدالت کو بتایا کہ ’ملزمان کی جانب سے وکیل کی تقرری نہیں ہو سکی ہمیں وقت دیا جائے تاکہ ملزمان اپنے لیے وکیل کی تقرری کر سکیں۔‘

اس پر عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی پانچ اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

گذشتہ سماعت میں پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا تھا کہ ’عمران خان نے سعودی عرب سے ملنے والا سات کروڑ 15 لاکھ روپے مالیت کا قیمتی سیٹ 29 لاکھ روپے میں حاصل کیا، جس میں ہار، بُندے، بریسلٹس اور انگوٹھی شامل ہیں۔‘

مزید کہا گیا کہ ’ایف آئی اے نے دفتر خارجہ کے ذریعے سعودی عرب سے بلغاری سیٹ کی اصل قیمت حاصل کرلی ہے اور نوٹری پبلک کی مدد سے تمام رسیدیں انگلش میں ترجمہ کروائی ہیں۔ ایف آئی اے کے پاس سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کے خلاف ناقابل تردید ثبوت ہیں۔‘

وکیل صفائی سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’توشہ خانہ ٹو کیس پہلے ریفرنس سے ملتا جلتا کیس ہے۔ پہلے والے اور اس ریفرنس میں ایک جیسے الزمات اور ایک جیسے وعدہ معاف گواہ ہیں۔ ایک توشہ خانہ کے دو مقدمات کیسے بن سکتے ہیں؟ دونوں مقدمات میں ملزمان بھی ایک جیسے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’بشریٰ بی بی سات مہینے سے قید ہیں، سپریم کورٹ کے نیب ترامیم بحالی فیصلے کے بعد اس کیس کو ختم ہونا چاہیے۔ یہ کیس نیب سے سپیشل جج سینٹرل کو منتقل ہوا لیکن بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو ضمانت نہیں ملی۔‘

نیا توشہ خانہ ریفرنس

توشہ خانے کے معاملے میں عمران خان کے خلاف اب تک تین جبکہ بشریٰ بی بی کے خلاف دو ریفرنسز دائر ہو چکے ہیں۔

نیب نے توشہ خانہ ریفرنس ون میں ٹرائل کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف نیا توشہ خانہ ریفرنس رواں برس جولائی میں دائر کیا تھا، جو سات گھڑیوں سمیت 10 قیمتی تحائف خلاف قانون پاس رکھنے اور فروخت کرنے سے متعلق ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیا ریفرنس درحقیقت نیب کی انکوائری رپورٹ ہے، جس میں احتساب کے ادارے کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ’10 قیمتی تحائف خلاف قانون اپنے پاس رکھے اور فروخت کیے۔‘

قوانین کے مطابق ہر سرکاری تحفے کو پہلے رپورٹ کرنا اور توشہ خانہ میں جمع کروانا لازم ہے اور صرف 30 ہزار روپے تک کی مالیت کے تحائف مفت اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں۔

نیب کے نئے ریفرنس کے مطابق گراف واچ، رولیکس گھڑیاں، ہیرے اور سونے کے سیٹ پر مشتمل تحفے قانون کے مطابق اپنی ملکیت میں لیے بغیر ہی بیچے گئے، گراف واچ کا قیمتی سیٹ بھی ملکیت حاصل کیے بغیر ہی بیچ دیا گیا اور نجی تخمینہ ساز کی ملی بھگت سے گراف واچ کے خریدار کو فائدہ پہنچایا گیا۔

مزید کہا گیا کہ تخمینہ ساز کا توشہ خانہ سے ای میل آنے سے پہلے ہی گھڑی کی قیمت تین کروڑ کم لگانا ملی بھگت کا ثبوت ہے۔ نیب کی انکوائری رپورٹ کے مطابق گراف واچ کی قیمت 10 کروڑ نو لاکھ 20 ہزار روپے لگائی گئی، جس میں سے 20 فیصد رقم یعنی دو کروڑ ایک لاکھ 78 ہزار روپے سرکاری خزانے کو دیے گئے۔

پہلا توشہ خانہ ریفرنس

توشہ خانہ یفرنس میں الزام تھا کہ بطور وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے غیر ملکی سربراہان سے 108 تحائف حاصل کیے، جن میں سے انہوں نے 14 کروڑ روپے مالیت کے 58 تحائف اپنے پاس رکھے۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’عمران خان نے سعودی ولی عہد سے موصول جیولری سیٹ انتہائی کم رقم کے عوض اپنے پاس رکھا تھا۔ دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ یہ جیولری سیٹ ملٹری سیکریٹری کے ذریعے توشہ خانہ میں رپورٹ تو ہوا لیکن جمع نہیں کروایا گیا۔ اس طرح بشریٰ بی بی اور عمران خان نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف وزری کی، دونوں نے اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوئے جیولری سیٹ کی من پسند قیمت لگوائی۔‘

نیب دستاویز کے مطابق: ’جیولری سیٹ کی کل مالیت ایک ارب 57 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی، جس کی عمران خان اور بشریٰ بی بی نے 90 لاکھ رقم ادا کی تھی۔‘

احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس کے تحائف کو مالیت سے کم قیمت پر خریدنے کے الزام میں رواں برس 31 جنوری کو 14، 14 سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔

عمران خان اور بشریٰ بی بی پر ایک ارب 57 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا اور عمران خان کو عدالت کی جانب سے 10 سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے یکم اپریل 2024 کو توشہ خانہ ریفرنس میں سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہونے کی صورت میں ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

الیکشن کمیشن توشہ خانہ کیس

عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کا سب سے پہلا کیس اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو 2022 میں بھجوایا گیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے رہنما محسن شاہ نواز رانجھا سمیت پانچ اراکین قومی اسمبلی کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی نے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا تھا۔ اس ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا، اس لیے وہ صادق و امین نہیں رہے۔ اس بنیاد پر ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

عمران خان نے الیکشن کمیشن کو جو تحریری جواب جمع کروایا تھا، اس میں بتایا گیا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

اس کیس میں الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر 2022 کو سابق عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا اور ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا۔

گذشتہ سال پانچ اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سرکاری تحائف ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے الزام پر تین سال قید کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد انہیں زمان پارک سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست