پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: کیا شان مسعود کے لیے آخری موقع ہے؟

انگلینڈ کی ٹیم ایک بار پھر بین سٹوکس کی قیادت میں ملتان پہنچ چکی ہے۔ بین سٹوکس اگرچہ مکمل فٹ نہیں ہیں اور ان کی شرکت مشکوک ہے، ان کی غیر موجودگی میں اولی پوپ قیادت کریں گے۔ 

پاکستان کے کپتان شان مسعود 15 دسمبر، 2023 کو پرتھ ٹیسٹ کے دوسرے دن آؤٹ ہونے کے بعد میدان سے باہر جا رہے ہیں (اے ایف پی)

ملتان کے کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کا پہلا ٹیسٹ پیر سے شروع ہو رہا ہے۔ 

انگلینڈ کی ٹیم دسویں مرتبہ پاکستان کا دورہ کر رہی ہے۔

انگلینڈ کی ٹیم نے اب تک 27 ٹیسٹ میچ پاکستان کی سرزمین پر کھیلے ہیں، جن میں پانچ جیتے ہیں، جب کہ چار میں شکست ہوئی ہے۔ 

انگلینڈ نے 1961 میں پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا تھا اور تین میچوں میں سے ایک میچ میں فتح حاصل کر کے سیریز جیت لی تھی۔

اس سیریز کے بعد اگلی تین سیریز میں کوئی بھی ٹیم میچ نہیں جیت سکی تھی اور تینوں ٹیسٹ میچ ڈرا ہوگئے تھے۔

تاہم 1984 کی سیریز میں پہلی دفعہ ظہیر عباس کی قیادت میں پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ کراچی میں جیت کر اپنا نام منوایا تھا۔

پاکستان نے 1987 کے دورے میں جاوید میاں داد کی قیادت میں ایک اور سیریز جیت لی تھی۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سب سے دلچسپ میچ 2000 میں کراچی میں ہوا، جب ڈھلتے ہوئے سورج کی بہت مدھم روشنی میں انگلینڈ نے 176 رنز کا ہدف میچ کے آخری دن کے آخری گھنٹے میں مکمل کر کے سیریز جیت لی تھی۔ 

اس میچ میں پاکستان کے کپتان معین خان نے بارہا اپیل کی کہ اندھیرے کے باعث گیند نظر نہیں آرہی ہے لیکن امپائر اسٹیو بکنر نے میچ جاری رکھا۔ 

مرحوم گرام تھارپ کی شاندار اننگز نے انگلینڈ کو سرفراز کر دیا۔

پاکستان نے 2005 میں انضمام الحق کی قیادت میں سیریز دو ٹیسٹ میچوں کے فرق سے جیت کر گذشتہ حساب برابر کر دیا تھا۔ اس سیریز کے اصل ہیرو دانش کنیریا تھے جن کی خطرناک سپن بولنگ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

پاکستان انگلینڈ کرکٹ میں سب سے بدترین اور شرمناک سیریز 2022 کی تھی جب بابر اعظم کی قیادت میں ٹیم تینوں ٹیسٹ ہار گئی۔

انگلینڈ کی ٹیم نے بین سٹوکس کی قیادت میں جارحانہ کرکٹ کھیلتے ہوئے تینوں ٹیسٹ میچ میں ڈرا ہوتے ہوئے میچز جیت لیے تھے۔

اس سیریز سے پاکستان کرکٹ کی تنزلی شروع ہوگئی تھی جو اب تک جاری ہے۔

موجودہ دورہ

اب انگلینڈ کی ٹیم ایک بار پھر بین سٹوکس کی قیادت میں ملتان پہنچ چکی ہے۔ بین سٹوکس اگرچہ مکمل فٹ نہیں ہیں اور ان کی شرکت مشکوک ہے، ان کی غیر موجودگی میں اولی پوپ قیادت کریں گے۔ 

انگلینڈ کی ٹیم کی بیٹنگ لائن گذشتہ سیریز کی طرح ہے۔  بین ڈکٹ اور زک کرالی اوپنرز ہوں گے۔ بین ڈکٹ نے گذشتہ مہینوں میں متعدد بار عمدہ بیٹنگ کی ہے آسٹریلیا کے خلاف ان کی آخری میچ میں سینچری نے ان کا اعتماد بڑھا دیا ہے۔

کرالی البتہ اچھی فارم میں نہیں ہیں۔ اولی پوپ، جو روٹ اور ہیری بروک مڈل آرڈر میں بلے باز ہوں گے جبکہ ہیری بروک بہت اچھی فارم میں ہیں۔   اولی پوپ نے سری لنکا کے خلاف آخری میچ میں سینچری بنائی تھی۔

بولنگ میں جمی اینڈرسن اب ٹیم کے ساتھ نہیں ہیں لیکن نئے بولر گس اٹینکسن خطرناک بولر بن چکے ہیں۔

میتھیو پوٹ اور کرس ووکس دوسرے فاسٹ بولرز ہیں انگلینڈ کے نئے ابھرتے ہوئے فاسٹ بولر جوش ہل زخمی ہوگئے ہیں۔

سپن بولنگ میں انگلینڈ کے سینئیر بولر جیک لیچ ہوں گے اور ان کے ساتھ ریحان احمد اور شعیب بشیر ہوں گے۔ شاید یہ واحد شعبہ ہے جو کمزور ہے۔ انگلینڈ نے گذشتہ دو سیریز میں نوجوان شعیب بشیر کو موقع دے کر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے خلاف ان کی کارکردگی بہت اہم ہوگی۔

انگلینڈ کی ٹیم اگرچہ گذشتہ سیریز کی طرح مضبوط اور خطرناک نہیں ہے۔ سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کی شکستوں نے کسی حد تک کمزور کردیا ہے لیکن اس کے باوجود انگلینڈ سیریز کے لیے فیوریٹ ہے۔

انگلینڈ کو سب سے زیادہ سخت مقابلہ بولنگ میں ہے۔ جہاں تجربے کی کمی ہے۔

شاہینوں کے لقب سے نوازے جانے والے پاکستانی کھلاڑی گذشتہ دو سال سے سہمے ہوئے کبوتر نظر آتے ہیں جو امریکہ جیسی چوتھے درجہ کی ٹیم سے بھی ہار جاتے ہیں۔  لیکن سہولتیں حاصل کرنے میں وہ آسٹریلین کھلاڑی بن جاتے ہیں۔

انہیں اعلی ترین تنخواہیں، بہترین طرز زندگی اور شاہانہ پروٹوکول چاہیے لیکن میدان میں وہ نااہل نظر آتے ہیں۔ 

سابق چیئرمین ذکا اشرف سے جس دھونس اور بلیک میلنگ کے ذریعے تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کرایا گیا، وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔  

اس سارے منظر نامے کے خالق ایک سابق کپتان تھے جو بظاہر بہت معصومانہ باتیں کرتے ہیں۔

بنگلہ دیش جیسے دوسرے درجہ کی کرکٹ کھیلنے والے ملک کے خلاف پاکستان ٹیم نے جو کارکردگی دکھائی اس پر پوری ٹیم کو تبدیل کردینا چاہیے لیکن ٹیلنٹ کی کمی نے ان کاغذی شیروں کو سر چڑھا رکھا ہے۔

بیٹنگ میں اوپنرز کی بدترین کارکردگی نے ایک عمدہ مڈل آرڈر کو تہس نہس کر دیا ہے۔ اوپنر عبداللہ شفیق اگرچہ درست تکنیک سے کھیلتے ہیں لیکن شاٹ کے انتخاب میں کمزوری غالب آچکی ہے۔ خراب فارم میں ان کا باقی رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ متبادل میسر نہیں ہے۔

دوسرے اوپنر صائم ایوب خراب تکنیک اور کارکردگی کے باوجود پہلی چوائس ہیں تاہم محمد ہریرہ اپنے کیرئیر کے آغاز کے لیے تیار ہیں۔

ہریرہ کا فرسٹ کلاس کیرئیر متاثر کن ہے۔ تاہم انگلینڈ کے خلاف آغاز مشکل ترین ہوگا۔

کپتان شان مسعود ون ڈاؤن پر کھیلتے ہیں بنیادی طور پر اوپنر ہیں لیکن اب مڈل آرڈر میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ مسلسل بری کارکردگی کے باوجود کپتان بھی ہیں اور مستقل ٹیم کا حصہ بھی!

بابر اعظم، سعود شکیل، محمد رضوان اور سلمان علی آغا مڈل آرڈر کے سرخیل ہوں گے۔

بابر اعظم وائٹ بال کرکٹ کی کپتانی سے مستعفی ہو کر بیٹنگ پر توجہ دینا چاہتے ہیں اگر ایسا ہوا تو وہ سیریز کے بہترین بلے باز بن سکتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعود شکیل بنگلہ دیش کے خلاف زیادہ کامیاب نہیں ہوئے تھے لیکن اب انگلینڈ کے خلاف جم کر کھیل سکتے ہیں۔

بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور میر حمزہ فاسٹ بولرز ہوں گے لیکن اگر پاکستان نے دو اوپنرز کھلائے تو میر حمزہ کی جگہ نعمان علی کھیل سکتے ہیں اس صورت میں سلمان آغا کی جگہ عامر جمال کو موقع دیا جاسکتا ہے۔

شان مسعود کے لیے آخری موقع

مسلسل پانچ ٹیسٹ ہارنے والے شان مسعود کی کپتانی بھی خطرے میں ہے۔ رواں سیریز میں ان کی تبدیلی کی بات ہو رہی تھی لیکن جیسن گلپسی کی سفارش پر وہ قائم رہے اگر اس سیریز میں وہ جیت نہ سکے تو بورڈ یقینی طور پر ساؤتھ افریقہ کے دورے پر محمد رضوان کو کپتان مقرر کردے گا۔ جن کے لیے میڈیا میں بھرپور تحریک چلائی جارہی ہے۔

شان مسعود کی کپتانی میں اتنا جھول نہیں ہے جتنا ٹیم کی کارکردگی خراب ہے۔ 

آپ کو جیت کے لیے بھی مضبوط کھلاڑی درکار ہیں لیکن شان مسعود کو بھی اپنی بیٹنگ بہتر کرنا ہوگی۔

ماڈرن کرکٹ کے نام پر غلط شاٹ سیلیکشن آپ کو کامیاب نہیں کرسکتی   شان مسعود اس وقت سب سے غیر متنازع اور قائدانہ صلاحیتوں کے مالک کھلاڑی ہیں لیکن بیٹنگ میں مستقل مزاجی کے فقدان نے ان کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔

پاکستان ٹیم کے پاس اگرچہ بہترین موقع ہے کہ یہ سیریز جیت لے کیونکہ انگلینڈ کی ٹیم اپنے ہی گھر میں سری لنکا اور ویسٹ انڈیز سے ہار کر آرہی ہے۔ اور بولنگ کے شعبے میں کمزور ہے۔

اگر پاکستان ٹیم منظم ہو کر اعتماد اور ہوشمندی سے کھیلے تو انگلینڈ کے کمزور شعبوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ تاہم اس کے لیے سب سے اہم بات آپ کا گیم پلان اور اس کا نفاذ ہے۔

بنگلہ دیش کے خلاف پچز کی غلط تیاری اور چار فاسٹ بولرز کی شمولیت نے ٹیم کو گھر میں ہی مجبور کر دیا تھا۔ جیسن گلسپی ایک معمولی کوچ ہیں اور وہ بنگلہ دیش کے خلاف گیم پلان میں ناکام رہے تھے۔ 

انگلینڈ کے خلاف اگر دفاعی حکمت عملی بنائی تو شکست یقینی ہے۔

ملتان پچ اور کنڈیشنز

ملتان کی پچ پر آخری ٹیسٹ میچ انگلینڈ کے خلاف ہی 2022 میں کھیلا گیا تھا جو پاکستان غیر متوقع طور پر آخری دن ہار گیا تھا۔ 

پچ چار دن تک بیٹنگ کی جنت بنی رہی لیکن پانچویں دن ریورس سوئنگ نے میچ کا نقشہ پلٹ دیا تھا۔  توقع ہے کہ اس دفعہ بھی پچ کا رویہ ایسا ہی ہوگا۔ پاکستان ٹیم مینجمنٹ ہوم سیریز کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکی کہ سپن ٹریک ہو یا بیٹنگ ٹریک۔ کیونکہ معیاری سپنر نہ ہونے کے باعث کوچ جیسن گلسپی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔ تاہم نعمان علی کی شمولیت سے سپن وکٹ بننے کا امکان ہے۔ 

انگلینڈ کی ٹیم روایتی جارحانہ کھیل کا ارادہ رکھتی ہے۔  سابق فاسٹ بولر سٹورٹ براڈ نے جارحانہ حکمت عملی پر ہی زور دیا ہے۔

انگلینڈ پاکستان ٹیسٹ سیریز نتائج سے بالاتر ہو کر ایک دلچسپ اور متاثر کن سیریز ہوگی جس میں شائقین کو زبردست کرکٹ دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ