قادر خان اسلام آباد کے رہائشی ہیں۔ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ماہانہ تنخواہ 30 ہزار روپے ہے اور پچھلے ماہ بجلی کا بل 25 ہزار روپے آیا ہے۔
یہ بل ایک پنکھا دو بلب اور ایک فریج چلانے کا ہے۔ وہ مہنگی بجلی کے خلاف جماعت اسلامی کے دھرنے میں بھی گئے تھے۔
وہ انتظار کر رہے تھے کہ حکومت کب آئی پی پیز سے معاہدے ختم کر کے اپنا وعدہ پورا کرے گی اور بجلی سستی ہو گی۔
آج انہوں نے خبر پڑھی کہ حکومت نے پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کر دیے ہیں اور اب بجلی سستی ہو جائے گی۔
وہ خبر سن کر بہت خوش تھے لیکن واپڈا میں کام کرنے والے ایک آفیسر دوست نے انہیں بتایا کہ ان معاہدوں کے ختم کرنے سے بجلی سستی نہیں ہو گی۔
کم از کم 23 آئی پی پیز معاہدے ختم ہوں تو بجلی سستی ہو سکتی ہے۔ قادر خان یہ سن کر پریشان ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر معاہدے ختم کرنے سے بھی بجلی کی قیمت کم نہیں ہونی تو حکومت کے دعوے جھوٹے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں تب تک حکومت کی کارکردگی کو بہتر نہیں کہوں گا جب تک میرے گھر کا بجلی کا بل پانچ ہزار روپے نہ ہو جائے۔‘
رشید صاحب چائے کا کھوکھا چلاتے ہیں۔ ایک بلب اور پنکھے کا بل دس ہزار روپے آیا ہے۔ معاہدے ختم کرنے کی خبر سن کر وہ خوش نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سب سیاست ہے۔ میں تو اس وقت حکومت کی کامیابی مانوں گا جب دکان بل اتنا آئے جتنا دو سال پہلے آتا تھا۔‘
بلال اسلم فیکٹری چلاتے ہیں۔ بجلی کے بھاری بلوں سے تنگ آکر انہوں نے سولر سسٹم لگوانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت جتنے بھی معاہدے ختم کر لے بجلی سستی نہیں ہو سکتی کیونکہ بجلی چوری روز بروز بڑھ رہی ہے۔ واپڈا کا ترسیلاتی نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔
حکومت نے چند سالوں میں تقریباً 40 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کی ہے اگر اگر 10 روپے فی یونٹ بجلی سستی ہو بھی جائے تو پرانے حالات واپس نہیں آ سکیں گے۔ اس لیے سولر سب سے بہتر ہے۔‘
انڈیپنڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔
عارف حبیب لمیٹڈ پاور سیکٹر کے تحقیقی سربراہ محمد عمد نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس وقت ملک میں تقریبا 101آئی پی پیز کام کر رہی ہیں۔ پانچ کے ساتھ معاہدے ختم کرنے سے باقی 96 آئی پی پیز باقی رہ جائیں گی۔
’جن پانچ کمپنیوں سے معاہدے ختم کیے گئے ہیں ان کے معاہدوں کی مدت دو تین سال میں ختم ہو رہی تھی۔ اگر حکومت معاہدے ختم نہ بھی کرتی تو وہ خود بخود ختم ہو جاتے۔
’ان معاہدوں کے ختم ہونے سے تقریبا 70 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے اور فی یونٹ تقریبا 70 پیسے کمی آسکتی ہے۔ اتنی کمی سے عوام کو ریلیف نہیں ملے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر واپڈا 10 روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے پی ایل ایل ( پاور ہولڈنگ لمیڈڈ) کے 3.23 روپے فی یونٹ چارجز ختم کرے۔
’واپڈا آئی پی پیز کو ادائیگیاں کرنے کے لیے بینکوں سے سود پر قرض لیتا ہے۔ اس کی ادائیگی کے لیے 3.23 روپے فی یونٹ عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’اس کے علاوہ اگر سی پیک معاہدوں کی تو پروفائلنگ کی جائے تو تقریبا تین روپے فی یونٹ تک بچت ہو سکتی ہے۔ پانچ آئی پی پیز معاہدے ختم کرنے سے 70 پیسے فی یونٹ بجلی سستی ہو سکتی ہے۔
’یہ ٹوٹل تقریبا سات روپے فی یونٹ بنتا ہے۔ سردیوں میں بجلی کا استعمال تقریبا 13 ہزار میگاواٹ ہے۔ اگر اسے معمولی سا بڑھا دیا جائے تو تین سے چار روپے فی یونٹ بچت ہو سکتی ہے- اس طرح تقریبا 10 روپے فی یونٹ بجلی بآسانی سستی کی جا سکتی ہے۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈیپنڈٹ اردو کو بتایا کہ ’پانچ معاہدے ختم ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ یہ تو 1992, 1994 کے سستے معاہدے تھے۔ اصل ادائیگیاں تو 2015 کے معاہدوں کی ہیں جن میں چائنیز آئی پی پیز سر فہرست ہیں۔
’اگر چائنیز کو منا لیا گیا تو بجلی قیمت کم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ فی الحال چائنیز کو منانا مشکل ہے۔عام آدمی کو سستی بجلی دینے کے لیے سولر انرجی کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق: ’سولر پر ایک یونٹ 12سے 13روپے کا پڑتا ہے اور واپڈا کا یونٹ اسی روپے تک جاتا ہے۔
اگر حکومت سولر میں رکاوٹ نہ ڈالے تو چند سالوں میں عوام واپڈا سے سولر پر منتقل ہو جائیں گے۔ واپڈا اسی طرح بے معنی ہو جائے گا جیسے موبائل فون کے مقابلے میں آج پی ٹی سی ایل لینڈ لائن فون ہیں۔‘
جماعت اسلامی کے ترجمان قیصر شریف نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا ’معاہدے ختم ہونا خوش آئند ہے لیکن پانچ معاہدے ناکافی ہیں۔
’یہ پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ حکومت کو 411 ارب کا فائدہ ہو گا اور عوام کو صرف 70 ارب کا فائدہ دیا جائے گا۔ یہ نہ انصافی ہے اگر 411 ارب روپے کے فائدے کا رخ بھی عوام کی طرف کیا جائے تو عوام کے لیے بجلی سستی ہو جائے گی۔‘
فیڈریشن پاکستان چمبر آف کامرس کے نائب صدر ذکی اعجاز نے انڈیپنڈٹ اردو کو بتایا کہ ’انڈسٹری کے لیے اکتوبر کے آخر میں بجلی مزید سستی ہونے کے امکانات ہیں۔ اس سے اشیا کی قیمتیں کم ہوں گی اورعام عوام کو بھی ریکیف مل سکتا ہے۔‘