ماہرین آثار قدیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ چین میں ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کاسمیٹکس کی صنعت پھل پھول رہی تھی۔
کاسمیٹک کی صنعت نے 618 اور 907 قبل مسیح کے درمیان ترقی کی جب جانوروں کی چربی سے بنے موئسچرائزر اور گریفائٹ پاؤڈر کا استعمال کرتے ہوئے بھنووں کو بڑھانے والی کاسمیٹک سمیت متعدد میک اپ کی مصنوعات تیار کی گئیں۔
’آرکیالوجیکل اینڈ اینتھروپولوجیکل سائنسز‘ جریدے میں شائع ہونے والی ایک اس تحقیق کے مطابق میک اپ کی مصنوعات عام طور پر تانگ خاندان کے امیر اور غیر اشرافیہ طبقے استعمال کرتے تھے۔
اس تحقیق میں تانگ خاندان کے دارالحکومت ژیان میں ہزاروں مقبروں کا جائزہ لیا گیا اور معلوم ہوا کہ وہاں رہنے والے چینیوں نے نہ صرف کاسمیٹک کی ترکیبیں ایجاد کیں بلکہ انہیں بہتر بھی بنایا۔
مثال کے طور پر ایک موئسچرائزر پروڈکٹ جس کی شناخت رومنینٹ فیٹ (چوپائیوں کی چربی) کے طور پر کی جاتی ہے، اس میں تھوڑی مقدار میں گوبھی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے پودوں کا تیل شامل کیا گیا جو شمالی چین کی سرد اور خشک سردیوں میں سادہ جانوروں کی چربی کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے جلد پر پھیلائی جا سکتی تھی۔
مطالعہ میں کہا گیا کہ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موئسچرائزر کی ترکیب کو کس طرح بہتر بنایا گیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین آثار قدیمہ کو یہاں سے رنگین کاسمیٹکس کے استعمال کے شواہد بھی ملے ہیں۔ انہیں سبزیوں کے تیل، حشرات اور پودوں کے عرق کے مرکب سے بنائے گئے شیلز میں کچھ نامیاتی باقیات بھی ملیں۔
اس جگہ پر پایا جانے والا ایک اور سکن کیئر پروڈکٹ ممکنہ طور پر درختوں سے نکلنے والی گوند اور نباتاتی تیل کے مرکب سے بنایا گیا تھا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ تانگ خاندان کے لوگ آج کے دور کی لپ سٹک اور بلشر جیسی مصنوعات بھی استعمال کرتے تھے۔
مطالعے میں بتایا گیا: ’گریفائٹ پتھر کا ایک ٹکڑا بھنوں کی کاسمیٹک کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور شنگرف (سرخ دھات) اور جانوروں کی چربی کے مرکب کو لپ سٹک یا بلشر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔‘
تاہم کچھ اشیا میں پارے جیسی معدنیات موجود ہو سکتی ہے جو استعمال کرنے والوں کے لیے زہریلا مادہ ہوتا ہے۔
مطالعے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بھی کاسمیٹکس متنوع تھی اور چین میں تانگ خاندان کے اقتدار کے دوران میک اپ کی مصنوعات کی تیاری میں پودوں، جانوروں اور معدنیات سمیت کئی دیگر خام مال کو استعمال میں لایا گیا۔
© The Independent