پاکستان ریلویز کی جانب سے مالی بحران سے نکلنے کے لیے مسافر ٹرینوں کو مراحلہ وار نجی شعبے کے حوالے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم دوسرے مرحلے میں دس کے بجائے محض تین ٹرینوں کے لیے نجی شعبے کے سرمایہ کار کامیاب ہو سکے ہیں۔
ریلویز انتظامیہ نے اس حوالے سے 19 ستمبر تک درخواستیں طلب کی تھیں۔
پاکستان ریلویز کی انتظامیہ کے مطابق ٹینڈرز کھولے جانے پر صرف تین پارٹیاں ہی شرائط پر پورا اتر سکیں، جنہیں آئندہ مہینے سے ٹرینوں کا انتظام سونپ دیا جائے گا۔
ترجمان ریلوے بابر علی رضا کے مطابق ’ہم نے ریلویز کی آمدن بڑھانے کے ساتھ مسافروں کی سہولت اور ملکی قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے شرائط رکھی ہیں۔ ان شرائط کو پورا کیے بغیر کوئی بھی ٹرین چلانے کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
محکمہ ریلویز نے 2014۔15 میں ٹرینوں کی نجکاری کا عمل شروع کیا تھا، لیکن اب تک صرف دو ٹرینیں ہی نجی شعبے کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں۔
نجکاری پلان کے باوجود ریلوے کی مالی مشکلات برقرار ہیں اور محکمہ وفاقی حکومت سے ملنے والے اربوں روپے کے بیل آؤٹ پیکج سے ہی سانسیں لے پا رہا ہے۔
پاکستان ریلویز حکام نے ایک سال زیادہ سے زیادہ مسافر ٹرینیں نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ منصوبے کے مطابق نجی شعبے کو دی جانے والی ریل گاڑیوں کا انتظام محکمے کے پاس ہی رہنا تھا۔
اسی منصوبے کے تحت پہلے مرحلہ میں 10 ٹرینویں نجی شعبے کے حوالے کی جا چکی ہیں، جب کہ رواں سال کے دوران مجموعی طور پر مزید 22 ٹرینیں پرائیوٹ سیکٹر کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے پاکستان ریلویز حکام نے محکمے کی آمدن میں غیر معمولی اضافے کا دعویٰ کیا ہے، جس کا ثبوت محکمے کے اخراجات اپنی آمدن سے پورا ہونا بتایا جاتا ہے۔
تین برس سے میانوالی ایکسپریس چلانے والی کمپنی کے مالک رانا رفاقت ریلویز انتطامیہ کی شرائط پوری کرنے کے بعد بہترین منافع حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پیشہ ورانہ ٹیم کے ذریعے آپریشن بلا تعطل جاری ہے اور مسافروں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، جس کی بڑی وجہ معاہدے کے مطابق سہولیات اور کھانا فراہم کرنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے لیکن کبھی چھوٹے چھوٹے مسائل ہوتے بھی ہیں تو وہ مل کر حل کر لیے جاتے ہیں۔ ٹکٹیں کیونکہ ریلوے کے آن لائن نظام کے تحت ہی بک ہوتی ہیں اس لیے ہم صرف مسافروں کو آرام دہ سفر مہیا کرنے تک ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔‘
ریلویز کی شرائط
ترجمان پاکستان ریلویز بابر علی رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ٹرینوں کی نجکاری کے لیے ویسے تو کافی شرائط رکھی ہیں۔ لیکن تین شرائط ایسی ہیں جن میں کوئی نرمی نہیں ہو سکتی۔
’پہلی شرط ٹرینوں کے کرائے طے اور ان میں اضافی یا کمی کرنے کا اختیار ریلویز انتظامیہ کا دیتی ہے، جب کہ دوسری شرط کے تحت ٹرین چلانے والی کمپنی ٹکٹ اپنے طور پر فروخت نہیں کر سکے گی اور ایسا ریلویز کا عملہ آن لائن نظام کے تحت ہی کر سکے گا۔‘
تیسری شرط کی تفصیل بتاتے ہوئے بابر علی رضا نے کہا کہ ’تمام ریل گاڑیوں میں کھانے کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا اور مسافروں کو کھانا وہی دیا جائے گا جو منظور شدہ لسٹ میں شامل ہو گا۔‘
’اس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جا سکے گا، جب کہ ٹرین کی بوگیاں بھی مسافروں کی ڈیمانڈ کے مطابق وہی ملیں گی جن کی بکنگ ہو گی۔‘
بابر علی کے بقول: ’اس کے علاوہ بھی کئی انتظامی شرائط رکھی گئی ہیں۔ لیکن ٹرین لینے کی خواہش مند کمپنی مالکان ان تینوں شرائط میں لچک پر اسرار کرتے ہیں۔
’حالیہ دنوں میں ٹینڈر دینے والی کمپنیاں کافی تھیں لیکن ان میں سے صرف تین شرائط پوری کرنے میں کامیاب رہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت ملک میں پاکستان ریلویز مجموعی طور پر نو ہزار 798 مسافر ٹرینیں چلا رہا ہے، جب کہ سات سے نو مال گاڑیاں چل رہی ہیں، جن کا مکمل انتظام محکمے کے پاس ہے۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ ’نجکاری کے دوسرے مرحلہ میں کراچی ایکسپریس، عوام ایکسپریس، ہزارہ ایکسپریس، بہاوالدین ذکریا ایکسپریس، مہر ایکسپریس ان کے علاوہ سکھر ایکسپریس، چناب ایکسپریس، مہران ایکسپریس، موہنجوداڑو پسنجر، راولپنڈی پسنجر کو نجی شعبے کے ذریعے چلانے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔‘
ٹرینوں کی نجکاری سے آمدن
پاکستان میں ریل گاڑیوں کے نظام کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بڑا سسٹم مانا جاتا ہے۔ لیکن گذشتہ دو دہائیوں سے محکمے کی حالت وقت کے ساتھ بگڑتی رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2010 میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ پاکستان ریلویز کے پاس ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے وسائل بھی موجود نہیں تھے۔
وفاقی حکومت کو پاکستان ریلویز کے لیے سالانہ 30 سے 40 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج مختص کرنا پڑا۔
تاہم 2013 کے بعد محکمہ کی کارکردگی میں کچھ بہتری نظر آئی لیکن مالی بدحالی مکمل نہ سنبھل سکی۔
رواں سال جب پاکستان ریلویز کی انتظامیہ نے ٹرینوں کی نجکاری کا عمل تیز کیا تو آمدن میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ریلوے انتظامیہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق محکمے کو چند ماہ میں چھ ارب 67 کروڑ 70 لاکھ روپے کی آمدن ہوئی، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ ملازمین کی تنخواہیں اور دوسرے اخراجات کے سلسلے میں بھی ادارہ خود کفیل ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان ریلویز کے کراچی ڈویژن کے زیر انتظام چلنے والی ریل گاڑیوں میں پہلی سہ ماہی کے دوران 12 لاکھ 74 ہزار 471 مسافروں نے سفر کیا اور ان ٹرینوں کی وقت کی پابندی 89.79 فیصد رہی۔
کراچی ڈویژن نے مال اور مسافر گاڑیوں کے آپریشن میں 16.24 فیصد زیادہ آمدن حاصل کی۔
ریلوے حکام کے مطابق آمدن میں اضافے کا فائدہ مسافروں کو پہنچانے کے لیے گذشتہ ماہ مسافر ٹرینوں کے کرایوں میں 10 فیصد کمی کی گئی، جب کہ ملازمین کی تنخواہوں میں بھی 20 فیصد تک کا اضافہ کیا گیا۔