انڈیا کے سرفراز خان جنہیں ٹیسٹ کیپ ملنے میں 10 سال لگ گئے

انڈین بلے باز سرفراز خان کو اچھی کرکٹ کھیلنے اور بڑے ریکارڈ بنانے کے باوجود انڈیا کی ٹیسٹ ٹیم میں مقام بنانے کے لیے بہت طویل وقت لگا۔

19 اکتوبر 2024 کو بنگلورو کے ایم چناسوامی سٹیڈیم میں انڈیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلے ٹیسٹ کرکٹ میچ کے چوتھے دن انڈیا کے سرفراز خان 150 رنز بنانے کے بعد جشن منا رہے ہیں (اے ایف پی) 

انڈیا اگرچہ بنگلور ٹیسٹ نیوزی لینڈ سے ہار گیا لیکن شکست کے باوجود انڈین میڈیا سرفراز خان کی بیٹنگ کی تعریف کر رہا ہے۔

سرفراز خان نے بنگلور میں نیوزی لینڈ کے خلاف دوسری اننگز میں 150 رنز کی بے مثال اننگز کھیلی، جو پہلی اننگز کے صفر کا بھرپور جواب تھا۔  

وہ عالمی کرکٹ کے 22 ویں کھلاڑی ہیں، جنہوں نے پہلی اننگز میں صفر کی ہزیمت اٹھائی اور دوسری اننگز میں سنچری سکور کی۔ ویراٹ کوہلی اور رشبھ پنٹ کے ساتھ ان کی پارٹنر شپس نے ایک لمحے کو تو میچ انڈین کیمپ میں واپس پہنچا دیا تھا لیکن بعد میں آنے والے بلے بازوں کی خراب کارکردگی نے شکست کا داغ انڈین چہرے پر چھاپ دیا۔ 

سخت ٹریننگ کا نتیجہ 

ممبئ کے سرفراز خان، جو 22 اکتوبر کو 27 سال کے ہوجائیں گے، کو ٹیسٹ کرکٹ تک پہنچنے میں بہت وقت لگا۔ حالانکہ لڑکپن کے دور سے ہی وہ ایک شاندار بلے باز رہے ہیں۔ انہیں سکول کرکٹ میں سب سے زیادہ انفرادی رنز بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔

2012 میں حارث شیلڈ کرکٹ ٹورنامنٹ میں رضوی بلڈرز کی ٹیم رضوی سپرنگز کی طرف سے انہوں نے 439 رنز بنا کر سچن ٹنڈولکر کو پیچھے چھوڑ دیا تھا، جو 1988 میں 346 رنز بنا کر ٹیسٹ کرکٹ تک پہنچے تھے۔

ممبئی کے میدان میں 10 گھنٹے روز ٹریننگ کرنے والے سرفراز خان جب ڈھیلے ڈھالے سفید کپڑے پہنے روز ٹریننگ کرتے تو کچھ لوگ مذاق اڑاتے کہ یہ بھاری بھرکم لڑکا کہاں کھیل پائے گا۔

سرفراز کی سخت ٹریننگ کے پیچھے ان کے والد نوشاد خان تھے، جو خود بھی پروفیشنل کرکٹر رہے ہیں۔  

اترپردیش کے علاقے اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے نوشاد خان اچھے کیریئر کی تلاش میں ممبئ آئے تھے اور سرفراز وہیں پیدا ہوئے۔ نوشاد خان نے روز اول سے اپنے خوابوں کی تعبیر سرفراز میں دیکھنا شروع کی۔

ٹریننگ کے معاملے میں نوشاد اتنے سخت تھے کہ بارش اور سخت دھوپ میں بھی وہ ٹریننگ نہیں چھوڑتے تھے۔ مختلف پچوں سے آشنا کرنے کے لیے وہ سر فراز کو ممبئی کے ہر گراؤنڈ پر لے جاتے اور پریکٹس کرواتے۔ 

سکول اور پھر کلب کرکٹ میں بہتر کارکردگی کے باوجود سرفراز کو ممبئی کے سیلیکٹرز نے جب منتخب نہیں کیا تو نوشاد خان نے سوچا کہ اتر پردیش سے کوشش کرتے ہیں، جہاں شاید تعصب کم ہو۔ وہ دو سال اترپردیش کی ٹیم کے لیے کوشش کرتے رہے لیکن وہاں بھی کسی نے سرفراز کے ٹیلنٹ کو نہیں پرکھا۔

ممبئی واپسی 

اترپردیش میں مایوس ہونے کے بعد نوشاد سمجھ گئے کہ اگر انڈین ٹیم تک پہنچنا ہے تو ممبئی سے ہی قسمت آزمائی کرنا ہو گی۔ ممبئی جسے انڈین ٹیم کی جنم بھومی کہا جاتا ہے اور جس نے انڈیا اور دنیا کو بڑے بڑے کھلاڑی دیے، کرکٹ سہولیات میں بہت پیچھے ہے۔ ممبئی میں کرکٹ زیادہ تر ایسے میدانوں میں کھیلی جاتی ہے، جو غیر ہموار اور پتھروں سے اٹے ہوئے ہیں۔

سب سے بڑے مرکز آزاد میدان کا حال یہ ہے کہ اس میں 22 کرکٹ پچز ہیں، جن پر ایک وقت میں 22 میچ ہو رہے ہوتے ہیں اور کھلاڑی ایک دوسرے پر گر رہے ہوتے ہیں۔  اس کے ساتھ ہی دوسرا میدان کراس میدان ہے، جو کسی حد تک بہتر حالت میں ہے۔ آزاد میدان نے سنیل گواسکر، وجے مرچنٹ اور سچن ٹنڈولکر جیسے عظیم کرکٹرز پیدا کیے۔  

سرفراز بھی وہیں دوبارہ کھیلنے لگے۔ 2016 میں انہیں انڈیا کی طرف سے انڈر 19ورلڈ کپ میں نمائندگی کا موقع مل گیا۔ اس ورلڈ کپ میں ان کی بیٹنگ کو دیکھتے ہوئے ایمرجنگ پلیئر کے طور پر رائل چیلینجرز بنگلور نے انتخاب کر لیا۔

بنگلور کے مینٹور انیل کمبلے نے ان کی صلاحیتوں کو جانچ لیا، لیکن وہ کوئی میچ نہیں کھیل سکے کیونکہ کپتان ویراٹ کوہلی ان کی فٹنس سے مطمئن نہیں تھے۔ کوہلی نے سرفراز کو وزن کم کرنے کا مشورہ دیا۔ اس دوران انہیں کمر کی تکلیف نے بھی پکڑ لیا اور وہ ٹیم سے باہر ہو گئے۔ 

فرسٹ کلاس کرکٹ 

سرفراز خان کے ایک کوچ اکرم شیخ جو ممبئی میں اکیڈمی چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ سرفرازمیں بے حد ٹیلنٹ تھا اور وہ اس وقت کے قومی ٹیم کے بہت سے کھلاڑیوں سے بہتر کھیلتے تھے، لیکن انہیں موقع نہ مل سکا۔

فرسٹ کلاس کرکٹ میں ممبئی کی طرف سے بے تحاشا رنز کرنے کے باوجود سلیکٹرز ان کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ ان کا فرسٹ کلاس میں 70 رنز کا فی اننگز اوسط ایک مثالی اوسط ہے۔ وہ 4400 رنز بنا چکے ہیں، جن میں ایک ٹرپل سنچری بھی شامل ہے، لیکن ان کے بعد کے شبھمن گل، یشسوی جیسوال اور پرتھوی شا کو تو ٹیسٹ کیپ مل گئی لیکن سرفراز خان کو 10 سال انتظار کرنا پڑا۔

حالانکہ وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں دھوم مچا چکے تھے۔ ہر ایک ان کے بارے میں بات کرتا تھا۔  یہاں تک کہ روہت شرما نے بھی ان کی حمایت کی تھی کیونکہ روہت بھی ایک انتہائی غریب خاندان سے ٹیسٹ کرکٹ تک پہنچے تھے۔ وہ اس سارے کھیل کو سمجھتے تھے۔

ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز

جب روہت شرما کپتان بنے تو ان کی نظریں سرفراز پر تھیں۔ روہت نے ان کا کیس لڑا اور انگلینڈ کے خلاف اسی سال راجکوٹ گجرات ٹیسٹ میں انہیں جگہ دے دی۔  یہ سرفراز کے لیے سب سے بڑا دن تھا۔

آنسوؤں سے لبریز سرفراز کو جب انیل کمبلے نے ٹیسٹ کیپ دی تو سرفراز بھاگتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں ان کے والد نوشاد خان اور ان کی والدہ تھیں۔ سرفراز نے اس وقت میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے والد کا خواب تھا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹر بن جائیں لیکن برے مالی حالات نے انہیں نہیں بننے دیا، تاہم آج ان کا خواب پورا ہو گیا۔  

پہلے ہی ٹیسٹ میں دونوں اننگز میں نصف سنچریاں بنا کر سرفراز خان انڈیا کے چوتھے بلے باز بن گئے، جنہوں نے پہلے ٹیسٹ میں ہی ایسا کیا ہو۔ وہ شاید سنچری کر جاتے لیکن انڈیا میچ جیت چکا تھا۔ ان کی پہلی ہی اننگز پر سچن ٹنڈولکر نے انہیں شاباش دی تھی۔ 

وہ انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں میں 200 رنز بنا کر اپنی جگہ مستحکم کر گئے، لیکن بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں انہیں موقع نہیں مل سکا۔ 

نیوزی لینڈ کے خلاف جب پہلے ٹیسٹ کے لیے ٹیم کا اعلان ہوا تو ابتدائی طور پر سرفراز کا نام شامل نہیں تھا لیکن بعدازاں شاید روہت شرما کے کہنے پر انہیں شامل کیا گیا۔ 

بنگلور ٹیسٹ انڈیا کے لیے بدترین   

بنگلور جو ہمیشہ سے ’سپنرز کی جنت‘ مانا جاتا ہے اور انڈین ٹیم کے سپنرز کو جلدی کامیابی ملتی ہے، میں پانسہ پلٹ گیا اور ایک آسان اور ہموار پچ پر نیوزی لینڈ کے فاسٹ بولرز نے تباہی مچا دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ولیم رورک نے غیر معمولی سوئنگ کر کے انڈین بلے بازوں کو تارے دکھا دیے۔ انڈیا کے مہان بلے باز روہت شرما، ویراٹ کوہلی اور کے ایل راہول جیسوال جیسے سوکھے پتوں کی طرح اڑ گئے۔ پانچ بلے بازوں نے صفر کا ذائقہ چکھا، جن میں سرفراز خان بھی شامل تھے۔ پوری ٹیم 46 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی۔ پہلی اننگز کی تباہی ٹیسٹ میچ میں شکست کی بنیاد بن گئی۔

دوسری اننگز میں انڈین بیٹنگ 350 سے زیادہ رنز کے خسارے میں تھی، تاہم بیٹنگ نے کچھ سہارا لیا اور روہت شرما، ویراٹ کوہلی اور رشبھ پنٹ نے عمدہ اننگز کھیلیں، لیکن اصل اننگز سرفراز خان کی تھی، جنہوں نے کیریئر کی پہلی سنچری سکور کی۔ سخت دباؤ اور شکست کے آثار میں سرفراز نے نیچرل بیٹنگ کی۔

انہوں نے خوبصورت شاٹ کھیلے، جس پر سنیل گواسکر اور روی شاستری نے بار بار تعریفوں کے پل باندھ دیے۔  

194 گیندوں پر ان کے 150رنز ماڈرن کرکٹ کا شاہکار تھے۔ اگر وہ ساؤتھی کی ایک اٹھتی ہوئی گیند کو ڈرائیو نہ کرتے تو شاید آؤٹ نہ ہوتے اور ڈبل سنچری کر جاتے، لیکن قسمت نے ان کا بس یہیں تک ہی ساتھ دیا۔ 

انڈیا اگرچہ ٹیسٹ میچ ہار گیا لیکن سنجے منجریکر نے ان کی اننگز کو جیت کی اننگز قرار دیا۔ سچن ٹنڈولکر اور کوچ گوتم گمبھیر نے اسے بے مثال اننگز قرار دیا۔ 

لیکن سرفرازخان خود سے مطمئن نہیں۔ انہوں نے میچ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سنچری میں بہت مزہ آیا لیکن شکست کی کسک نے مزہ چھین لیا۔ 

سرفرازکو ٹیسٹ کرکٹ تک پہنچنے میں اگرچہ بہت وقت لگ گیا۔ جوانی اب ڈھلنے لگی ہے اور فٹنس کی کمی بھی ایک مسئلہ بن سکتی ہے، لیکن سرفراز کا عزم اور ان کے والد کی انتھک محنت نے ان کے جوش اور جذبے کو جوان رکھا ہوا ہے۔

انہیں ایک ایسے ماحول میں خود کو منوانا ہے، جہاں ترقی محنت سے زیادہ تعلقات اور پسند ناپسند پر ملتی ہے۔ سرفراز خان کی جدوجہد سینکڑوں نئے کرکٹرز کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے، جو انڈین ٹیم تک پہنچنے لے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ