سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی عیسیٰ نے 14 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی لکھا کہ ’آٹھ ججز کا 12 جولائی کا مختصر اور 23 ستمبر کا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرپور ہے، توقع ہے اکثریتی ججز اپنی غلطیوں پر غور کر کے درست کریں گے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’پاکستان کا آئین تحریری ہے اور آسان زبان میں ہے۔ آٹھ اکثریتی ججز کی 14 ستمبر اور 18 اکتوبر کی وضاحتوں میں بھی آئینی غلطیاں ہیں۔ فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میرا فرض ہے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’بدقسمتی سے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکی۔ میرے ساتھی ججز جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے نظر ثانی درخواست کے خلاف ووٹ دیا۔ کمیٹی اجلاس میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی مقرر نہ کرنے کا موقف اپنایا۔ امید کرتا ہوں اکثریتی فیصلہ دینے والے اپنی غلطیوں کا تدارک کریں گے اور اکثریتی ججز اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کے مطابق پاکستان کو چلائیں۔ پاکستان کا نظام آئین کے تحت چلے۔‘
’آٹھ ججوں نے 13 ججوں سے الگ اپنی عدالت بنا لی‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ’آٹھ ججوں نے 13 ججوں سے الگ اپنی عدالت بنالی اور نہ صرف یہ کہ قانون کے خلاف درخواستیں دائر کرنے کی اجازت دی بلکہ آئین ہی کو بدل دیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ مقدمے کی شنوائی کے دوران کسی بھی فریق نے یہ طریقہ کار اختیار کرنے کے بارے میں ایسی کوئی تجویز نہیں دی اور اکثریتی مختصر اور تفصیلی فیصلے میں بھی اس عمل کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی گئی۔ حقیقت میں قانون سازی کرتے ہوئے، اکثریتی ججوں نے اپنے ہی موقف کی نفی بھی کی۔ ان اکثریتی ججوں نے لکھا کہ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں صرف وہ سنیں گے، جب کہ سپریم کورٹ کا متفقہ قانون یہ ہے کہ نظر ثانی وہی بینچ سنتا ہے جس نے اصل درخواست سنی ہو۔‘
’مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد بائنڈنگ نہیں‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’مخصوص نشستوں کے کیس میں اپیلوں کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں۔ اکثریتی ججز نے وضاحتی درخواستوں کی گنجائش باقی رکھی ہے۔ کیس کا چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا اس پر عملدرآمد ’بائنڈنگ‘ نہیں۔ فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی۔ آئینِ پاکستان کی دفعات بہت واضح اور غیر مبہم ہیں، بہتر یہ ہے کہ آئین میں وہ مطالب و معانی تلاش نہ کئے جائیں جو اس میں موجود ہی نہیں۔‘
مزید کہا کہ ’مخصوص نشستوں کا مقدمہ آرٹیکل 51 اور 106 سے متعلق تھا لیکن اکثریتی آٹھ ججوں کے فیصلے میں ان آرٹیکل پر سرسری غور کیا گیا، اکثریتی فیصلے کے پہلے 58 صفحات عام انتخابات کے خد و خال، سیاسی جماعتوں، آرٹیکل 17 اور 19 اور الیکشن ایکٹ کی بعض مخصوص دفعات سے متعلق ہیں۔ اکثریتی ججوں نے اپنے وضاحتی فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کی ایک درخواست کا ذکر کیا ہے جس پر نہ پی ٹی آئی اور نہ اس کے چیئرمین گوہر خان کے دستخط ہیں۔‘
آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کے عہدے کی مدت پر کمنٹ
چیف جسٹس نے لکھا کہ ’مخصوص نشتوں کے مقدمے کی پہلی سماعت سب سے پہلے ایک تین رکنی بینچ کے سامنے مقرر ہوئی جس پر پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو اسی روز معطل کرتے ہوئے سماعت کے لیے منظور کیا گیا۔ اسی تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا کہ اس مقدمے کی لارجر بینچ میں سماعت کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم تین رکنی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔‘
بطور چیف جسٹس میں نے یہ تجویز دی کہ ’آئین میں مجوزہ ترمیم کی بات چل رہی ہے۔ اس مقدمے کی سماعت میں ان جج صاحبان کو شامل نہیں ہونا چاہیے جو ممکنہ طور پر آئینی ترمیم سے یا تو فائدہ اٹھائیں گے یا اس سے متاثر ہوں گے۔ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال ہونے کی صورت میں چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ پانچ دیگر جج صاحبان بھی ممکنہ طور پر متاثر ہو سکتے تھے۔ لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اس بات کی مخالفت کی تو میں نے کہا کہ پھر یہ مقدمہ فل کورٹ سنے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس منصور علی شاہ نے جنرل باجوہ کی توسیع والے معاملے میں قانون سازی کی: چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ ’جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے میں اپنے ایک سابقہ فیصلے سے انحراف کیا ہے۔ جب سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ان کے سامنے آیا۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان، وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل چاہتے تھے کہ جنرل باجوہ بطور آرمی چیف برقرار رہیں۔ فروغ نسیم نے تو وفاقی وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر جنرل باجوہ کی وکالت کی اور عابد زبیری نے ان کی معاونت کی۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’دو دن کے اندر مقدمے کا فیصلہ ہو گیا۔ درخواست نہ منظور ہوئی نہ مسترد بلکہ جو فریقین کو مطلوب تھا وہ دے دیا گیا۔ عدالت نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کر دی جو کہ قانون سازی کے مترادف تھا۔ آئین افراد کی خواہشات کے تابع نہیں ہونا چاہیے اور جو ایسا کریں یا اس میں اعانت کریں ان کا مواخذہ کیا جانا چاہیے۔‘
مخصوص نشستوں کا کیس
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ میں سے اکثریتی بینچ نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا لیکن اختلاف کرنے والے دو ججوں نے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کہا کہ ’پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 (6)، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔ لہذا یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔‘
سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں فیصلہ چیلنج کیا۔ ابتدا میں اس کیس کی سماعت کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنایا گیا جس نے چھ مئی کو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا سنی اتحاد کونسل کی نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کر دیا اور اٹارنی جنرل کی استدعا پر فل کورٹ یا لارجر بینچ بنانے کے لیے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا جس کے بعد تین جون کو فُل کورٹ تشکیل دی گئی۔