پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکا ہے مگر اس میں حکومت سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف کا عمل دخل ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کسی کی حمایت بھی کرتی ہے تو اسے نقصان ہوتا ہے۔‘
حالیہ آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جسٹس منصور علی شاہ کی تقرری نہ ہونے سے متعلق سوال پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’جسٹس منصور علی شاہ ایک قابل جج ہیں مگر ان سے متعلق جو چیزیں ہوئیں وہ پی ٹی آئی والوں نے کیں۔‘
رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی والوں نے یہ بات کی کہ اکتوبر میں منصور علی شاہ آئیں گے اور ان کا بندوبست کر دیں گے۔‘
حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف 26 ویں آئینی ترمیم کی مخلاف رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس سح حکومت عدلیے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئینی ترمیم کا کوئی عمل دخل ہو کہ نہ ہو مگر ایسا کرنے سے اس شخص کی ساکھ تو متاثر ہوتی ہے۔‘
22 اکتوبر 2024 کو 26 آئینی ترمیم کے بعد بننے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے تین سینیئر ججوں میں سے جسٹس یحیٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کیا جبکہ ان تین ناموں میں جسٹس منصور علی شاہ سب سے سینیئر جج تھے۔
رانا ثنا اللہ سے سوال کیا گیا کہ نظر ایسے آ رہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ آئینی بینچ کے سربراہ بھی نہیں ہوں گے؟ جس کی رانا ثنا اللہ نے تصدیق کی اور کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اس آئینی بینچ کی سربراہی نہیں کریں گے۔
26 آئینی ترمیم سے متعلق رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’اس ترمیم میں سب سے اہم کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے اور ان کے دیے ہوئے مسودے میں انیس، بیس کی تبدیلی کی گئی۔‘
رانا ثنا اللہ کے مطابق: ’مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دیے گئے مسودے سے پاکستان تحریک انصاف کو اتفاق تھا۔‘
خواتین پر مقدمات اور ارشد شریف قتل کا معمہ
سابق وزیر اعظم عمران کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہنوں کے خلاف کیسز سے متعلق رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سیاسی لوگوں کے خلاف مقدمات بنتے رہتے ہیں مگر ذاتی طور پر وہ خواتین کے خلاف کیسز کے حق میں نہیں ہیں۔
’سیاسی لوگوں کے خلاف کیسز بنتے ہیں مگر ان کیسز کی حدود کو خواتیں تک پہنچانے کے خلاف ہوں۔‘
رانا ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف کیسز کے حق میں ہوں نہ ان کی بہنوں کے خلاف کیسز کے حق میں ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’میں عمران خان کی بہنوں کے اس جذبے کا حامی ہوں کہ جب پی ٹی آئی کی لیڈر شپ غائب تھی اور عمران خان کی بہنیں ڈی چوک پہنچیں۔‘
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’وہ بہنیں سیاسی نظریے کے طور پر نہیں بلکہ اپنے بھائی کے لیے ڈی چوک آئیں اور یہ کتنا تقدس ہے بہن بھائی کے رشتے کا۔‘
دوسری جانب رانا ثنا اللہ سے جب سوال کیا گیا کہ ارشد شریف قتل کو دو سال ہو چکے ہیں مگر تاحال یہ معمہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ معمہ بالکل حل نہیں ہونا۔‘
رنا ثنا اللہ نے کہا کہ ’جو مرضی آپ کریں یہ بالکل حل نہیں ہونا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیا کی پولیس کی ایک تاریخ ہے کہ وہ پیسے لے کر قتل کرتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں اس وقت وزیر داخلہ تھا، میرے پاس تمام معلومات ہیں کہ وہاں پر (کینیا) اس طرح کی وارداتیں ہوتی ہیں جس میں پولیس وہاں پر ٹارگٹ کلنگ کرتی ہے۔‘
وزیر اعظم کے مشیر نے سوال کیا کہ ’ارشد شریف کو کینیا ہی کیوں بھیجا گیا؟ اس طرف تو کوئی جاتا ہی نہیں۔‘
پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم پر پابندی
پی ٹی آئی پر پابندی لگانے سے متعلق سوال پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا اس معاملے کی حکومت اور وزیر اعظم کی جانب سے تردید کی گئی۔
15 جولائی کو وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پریس کانفرس کی جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس سے متعلق رانا ثنا اللہ کہنا تھا کہ ’وہ دن میں دو سے تین پریس کانفرنسز کرتے ہیں کسی ایک میں اوپر نیچے ہو جاتا ہے۔‘
دوسری جانب پختون تحفظ موومنٹ سے متعلق ان کی رائے تھی کہ ’منظور پشتین کوموومنٹ حکومت نے پابندی لگائی ہے مگر ہماری خواہش ہے اس معاملے کو سیاسی طور پر حل کیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم پی ٹی آئی اور عمران خان سے بھی مذاکرات کرنے کو تیار ہیں اور میں نے یہ بات آٹھ میں دس مرتبہ کی ہے مگر آگے سے جواب غیر معقول آتا ہے۔‘