کرناٹک اور کیرالہ کے درمیان ہاتھیوں کے جھنڈ کے لیے مشہور جنگل سے گزرتے ہوئے ٹیپو سلطان کا شہر دیکھنے کا احساس یوں سر چڑھ رہا تھا، جیسے میسور پہنچتے ہی ٹیپو سلطان کی پرچھائیاں نظر آنے لگیں گی۔
دوپہر کا وقت تھا اور دھوپ میں شدت تھوڑی کم تھی۔ شہر میں داخلے سے پہلے انگریزی اور کنڑ زبان میں آویزاں بورڈز پڑھنے شروع کر دیے۔ ہمیں لگا کہ میسور، جس نام کے لیے مشہور ہے، اسے پردہ اخفا میں گئے دو صدیاں بیت گئی ہیں، وہ تو نہیں مل سکتے، ان کی یادگار ہی مل جائے گی۔
ایک بڑا محل ہمیں عین میسور میں نظر آیا۔ اس کے پاس سیاحوں کی بھیڑ، گھوڑا گاڑیاں اور ٹریفک۔ سلطان ٹیپو کے حوالے سے انڈیا میں جاری نفرت اور علیحدگی کی سیاست کے تناظر میں سیاحوں کی بھیڑ سے اندازہ ہوا کہ کم از کم ٹیپو کے چاہنے والے ہیں تو ہیں۔
کچھ ہی دیر میں یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ شہر میسور میں جو محل واقع ہے، وہ سلطان ٹیپو کا نہیں اور نہ ہی سلطنتِ خداداد کے کسی حاکم کا بنایا ہوا ہے۔
اسے تو واڈیار راجا نے انگریزوں کی مدد سے بنوایا تھا۔ یہ محل دراصل میسور کے اصل حکمرانوں کی یادگار ہے، جنہیں سلطنتِ خداداد کے بانیوں نے کچھ وقت کے لیے حکمرانی سے الگ کر دیا تھا۔
مقامی تاریخ داں محمد ایوب انصاری بتاتے ہیں کہ ٹیپو میسور ریاست کے سلطان تھے اور ان کی حکمرانی کا مرکز شری رنگا پٹنم تھا۔
جو میسور شہر ہے، وہ انگریزوں کی آمد اور واڈیاروں کو واپس راجا کا درجہ ملنے کے بعد ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں انگریزوں کی یادگاریں جگہ جگہ مل جاتی ہیں۔
واڈیاروں کا محل یہیں ہے۔ ان کے مطابق میسور بطور ریاست کی تاریخ سیکڑوں سال قدیم ہے۔ واڈیار یہاں کے راجا ہوا کرتے تھے۔ ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی نے جب میسور ریاست کو اپنی حکمرانی میں لیا، تب سے کچھ وقت کے لیے واڈیار پس پشت چلے گئے۔ ٹیپو سلطان کے بعد انگریزوں نے واڈیار کو دوبارہ بحال کیا۔
آزادی کے بعد واڈیار نے ریاست کو انڈیا سے ملحق کر دیا۔ ابھی بھی علامتی طور پر واڈیار ہی اس علاقے کے راجا ہوتے ہیں۔ 2015 میں یدویر کرشنا دتا واڈیار کی بطور راجا تاجپوشی ہوئی ہے۔ انہوں نے 2024 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ سے الیکشن جیتا اور بطور رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔
ٹیپو سلطان کی اصل یادیں تو میسور شہر سے 15 کلومیٹر دور شری رنگا پٹنم میں ہیں، جہاں ٹیپو کا ایک محل زمین بوس حالت میں ہے، جبکہ دوسرا محل لکڑی کا ہے جسے حیدر علی نے بنوایا تھا اور نام تھا دریائے دولت باغ۔ اس کی شان اب بھی باقی ہے اور اب آثاِر قدیمہ کے تحت سیاحوں کا مرکز ہے۔
ٹیپو سلطان کا رہائشی محل ختم ہو چکا ہے۔ دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں، چھت نہیں ہے اور پوری طرح سے محل برباد ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کھلا جنگل ہو۔ فرش تو ابھی تک سلامت ہے لیکن جو دیواریں ہیں، وہ ختم ہو چکی ہیں۔
محل کی صورت حال بہت ہی تکلیف دہ ہے کیونکہ اسے محفوظ نہیں کیا گیا ہے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس محل کو اس طریقے سے نہیں رکھا گیا، جس طرح انڈیا میں کسی اہم شخصیت کی آخری یادوں کو رکھا جاتا ہے۔ شری رنگا پٹنم میں ہی سلطنتِ خداداد کے بانیوں کی قبر ہے اور ان کا مزار ہے، جسے ’گنبد‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
دراصل جس میسور کو ہم تاریخ کے ذریعے جانتے ہیں، وہ ایک وراثت ہے اور اس وقت انڈیا میں جو میسور شہر ہے، اس کا زیادہ تعلق ٹیپو سلطان سے نہیں ہے کیونکہ ٹیپو سلطان کی یادیں اس شہر میں نہیں ہیں۔
لیکن میسور ریاست کے طور پر، شری رنگا پٹنم میں ٹیپو سلطان کی آخری یادیں بہت ساری ہیں۔ ہندو راجا اور مسلم سلطان کے نظریے سے میسور کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
ایک نظریہ یہ ہے کہ واڈیار سلطنت کے چاہنے والے لوگ اس کو واڈیار سلطنت کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ کس طرح ٹیپو سلطان کے خاندان نے واڈیار سے حکومت چھین کر یہاں حکومت بنانے کی کوشش کی۔
دوسری طرف جو ٹیپو سلطان کے چاہنے والے ہیں، وہ اپنے نظریے سے میسور کی تاریخ کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹیپو سلطان ہندوستان کی جنگِ آزادی میں پہلے سلطان ہیں جنہوں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر انگریزوں سے لڑائی لڑی۔
جو لوگ ٹیپو سلطان کو جانتے ہیں اور مانتے ہیں، وہ انہیں بڑی عقیدت سے دیکھتے ہیں۔ لیکن شری رنگا پٹنم میں ایک چیز جو ہم نے محسوس کی، وہ یہ کہ حکومت کی جانب سے ٹیپو سلطان کو اعزاز بخشنے یا انہیں محبت سے یاد رکھنے کی کوشش نظر نہیں آتی۔
بہت ہی عام الفاظ میں ان کے بارے میں ہر جگہ لکھا گیا ہے، ’’killed by British soldiers‘‘، ’’last found there‘‘ اور اس طریقے سے یاد کیا گیا۔
اس شہر میں ہم ٹیپو سلطان کی یادیں بس اسی طریقے سے دیکھ پاتے ہیں جس طریقے سے وہ بچی ہوئی ہیں۔ بعد میں ایسی کوئی کوشش نہیں ہوئی جس میں ٹیپو سلطان کو ہندوستان کی ایک بڑی شخصیت کے طور پر دیکھا جا سکے۔
مورخین بتاتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کا اصل نام سلطان فتح علی ٹیپو تھا۔ وہ 20 نومبر 1750 کو بنگلور میں پیدا ہوئے اور ان کے والد، حیدر علی، اس وقت کے طاقتور حکمرانوں میں شامل تھے۔
ٹیپو سلطان کا نام ایک صوفی بزرگ، ٹیپو مستان اولیا، کے نام پر رکھا گیا تھا اور ان کے دادا کے نام کی مناسبت سے انہیں فتح علی بھی کہا جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیپو سلطان، ہندوستانی تاریخ کا وہ درخشاں کردار ہیں، جنہیں بہادری، حب الوطنی اور عوامی خدمت کا مثالی نمونہ کہا جا سکتا ہے۔
ٹیپو سلطان نے اپنے والد حیدر علی کے ساتھ مل کر میسور کی سلطنت کو برطانوی سامراج کے خلاف ایک ناقابل تسخیر قوت میں تبدیل کیا۔
ٹیپو سلطان کا ورثہ صرف ایک جنگجو تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک عوام دوست، دور اندیش حکمران کے طور پر بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
حکومتی اصلاحات کے تحت ٹیپو سلطان نے تجارت کو فروغ دیا، فوج کو جدید بنایا، اور راکٹ سازی جیسی ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا، جس نے انگریزوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ ان کے اسلحہ خانوں میں تیار کیے جانے والے میزائل اس زمانے کی جنگی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہیں۔
ٹیپو سلطان کے دورِ حکومت میں میسور ایک وسیع و مستحکم سلطنت تھی، جس کی فوج اور وسائل بے پناہ تھے۔
ان کے پاس 1.8 لاکھ فوج، 60 ہزار گھوڑے، 900 ہاتھی، اور لاکھوں ہتھیار تھے۔ ان کی سالانہ آمدنی ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ تھی۔
ٹیپو سلطان نے اپنی زندگی میں انگریزوں سے چار جنگیں لڑیں مگر آخری جنگ میں، جب ٹیپو سلطان کی شکست قریب آ چکی تھی، انہوں نے انگریزی افواج کے محاصرے کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کر دیا۔ بدقسمتی سے، غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کے دروازے کھول دیے، جس کے بعد شدید لڑائی شروع ہو گئی۔
چار مئی، 1799 کو بارود کے ذخیرے میں آگ لگنے سے ان کی افواج کی طاقت مزید کمزور ہو گئی۔
ایک فرانسیسی افسر نے انہیں مشورہ دیا کہ چترادرگا فرار ہو کر اپنی جان بچائیں، مگر ٹیپو نے انکار کرتے ہوئے انگریزوں سے مقابلے میں جان دینے کو ترجیح دی۔
تاریخ ٹیپو سلطان کو ہندوستان میں مذہب کی عینک سے دیکھتی ہے۔ ہندوتوا فکر کے لوگ ٹیپو سلطان کو ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھتے ہیں، جبکہ مسلمان انہیں عظیم سلطان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔