جارحیت اور دفاع

بچپن سے فلسطین کا تصور ایک سہمے ہوئے بچے جیسا ہے، جس کے ہاتھ میں ایک پتھر ہے اور اسرائیل کا تصور فوجی وردی میں ملبوس ایک ٹینک سوار مسلح فرد ہے۔ یہ تصور بین الاقوامی ذریعہ ابلاغ میں شائع تصاویر دیکھ دیکھ کر ہی بنا۔

14 اکتوبر، 2024 کو وسطی غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے کے بعد ایک بچہ متاثرہ مقام پر بیٹھا ہے جب لوگ تباہی کا جائزہ لے رہے ہیں (اے ایف پی)

جدید انسانی دور میں موجودہ وقت ایک ایسا وقت ہے کہ الفاظ جو کہ ابلاغ کے لیے استعمال ہوتے تھے، ابلاغ میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت سے معاملات میں لفظ انسانوں کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، سچ اور جھوٹ کے درمیان حدِ فاصل دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔

ہم جب صحافت پڑھ رہے تھے تو ہمارے اساتذہ اکثر ایک جملہ بولتے تھے کہ ’ایک تصویر ہزار لفظوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔‘ یہ حقیقت تھی اور آج ڈیجیٹل عہد میں یہ واحد سچائی ہے، پھر بھی کچھ لفظ جو بہت سی تصویروں کی موجودگی میں اپنے معنی کھو چکے ہیں، بدستور لکھے جا رہے ہیں۔

بچپن سے فلسطین کا تصور پریوں سے خوبصورت اور فرشتوں سے بھی معصوم ایک سہمے ہوئے بچے جیسا ہے، جس کے ہاتھ میں ایک پتھر ہے اور اسرائیل کا تصور فوجی وردی میں ملبوس ایک ٹینک سوار مسلح فرد ہے۔

یہ تصور بین الاقوامی ذریعہ ابلاغ میں شائع تصاویر دیکھ دیکھ کر ہی بنا اور اب حالیہ حماس اسرائیل تنازعے کے بعد مزید راسخ ہو گیا۔ یہ تصاویر حقیقت تھیں، یہ تصاویر آج کی سچائی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب آجاتی ہے بات ان الفاظ کی، جو ان حالات کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، یعنی ’جارحیت اور دفاع۔‘ دوسری عالمی جنگ کی ہولناک تباہیوں کے بعد  ’منسٹری آف وار افیئرز‘ کو ہر جگہ ہی ’منسٹری آف ڈیفنس‘ بنا دیا گیا، یعنی خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد۔

ناموں کی اس ادلا بدلی کے دوران دنیا والوں نے ایک ایسے خطے میں بھی ادلا بدلی شروع کی، جس کا دوسری عالمی جنگ میں کیے گئے مظالم سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔

یہاں بھی تصاویر جو کہتی تھیں، انہیں جھٹلا کر نئے الفاظ لاگو کر دیے گئے۔ صدیوں سے آباد فلسطینی کب پناہ گزین بنے، نئے آنے والے کب آباد کار بنے اور کیسے مالک ہوئے،  تصویریں کچھ کہتی رہیں، مناظر کچھ بتاتے رہے مگر کاغذوں پر مکڑیوں کی طرح الفاظ نے اپنے جالے بنے اور مشرق وسطیٰ کی قسمت کے فیصلے ہوتے چلے گئے۔

وقت تو اپنی رفتار سے چل ہی رہا ہے اور جنگیں اسی طرح ہو رہی ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ جنگیں لڑنے والے اب رجز پڑھتے، کھل کے نہیں کہتے کہ لو ہم آرہے ہیں، کیونکہ ہم جنگجو ہیں اور وسائل ہڑپنے کی ہوس ہمیں مہمیز کیے پھر رہی ہے۔

الفاظ کے پردے میں، کبھی دفاع کے لیے، کبھی کسی خطے کے وسیع تر امن کے لیے، کبھی عالم انسانیت کو وسیع پیمانے پر برباد کرنے والے مبینہ ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے، کبھی عوام کو ظالم مخالف نظریہ رکھنے والی حکومت سے آزادی دلانے کے لیے حملے جاری رہے۔

جنگیں اس لیے نہیں تھیں کہ ایک فریق مسلح تھا اور دوسرے خطے پر حملہ آور ہوا تھا۔ دوسرا فریق کہاں تھا؟ کچھ خبر نہیں تھی۔ تصویریں شہری آبادیوں کی بربادی دکھاتی رہیں اور الفاظ، ظالموں کے خلاف نیک دل حملہ آوروں کے انسانیت کے دفاع کی کہانیاں سناتے رہے۔

ایران اسرائیل کے حالیہ تنازعے نے ہفتے کو شدت اختیار کر لی، جب اسرائیل نے ایرانی حملوں کا جواب دیا۔ یہ حملے یکم اکتوبر کو کیے گئے تھے۔

یہ الفاظ پڑھنے کے بعد پینٹاگون کی تنبیہہ پڑھی کہ ’بس لڑائی لڑائی معاف کرو‘، اب ’جوابی حملہ‘ کیا گیا تو وہ جارحیت ہو گا اور اس سے خطے کے امن کو کچھ ہوا تو ذمے دار ایران ہو گا۔

کل ہی ایک چھوٹی سے ریل دیکھی جس میں ایک فلسطینی بچی اپنی بہن کو کندھے پر لاد کے پیدل ہسپتال جا رہی تھی۔ اس کے گھر والے کیا ہوئے؟ کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں وہ ننگے پاؤں سڑک پر اپنی ننھی بہن کو لیے کیوں پھر رہی تھی؟

تصویریں سوال اٹھاتی ہیں۔ الفاظ جوابات کو الجھا دیتے ہیں۔ جنگ کے بادل جو ایک بار پھر مشرق وسطیٰ پر منڈلا رہے ہیں، خدانخواستہ کتنی تکلیف دہ تصویروں کو جنم دیں گے اور جانے کتنے بے روح الفاظ ان تصویروں کو جھٹلائیں گے، الامان والحفیظ!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر