اسرائیل ’اپنے دفاع میں‘ غزہ میں شہریوں کا قتل کر سکتا ہے: جرمن وزیر خارجہ

جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے عام فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ’دہشت گرد‘ چھپنے کے لیے شہری مقامات چنتے ہیں تو پھر وہ مقامات اپنا ’تحفظ‘ کھو دیتے ہیں۔

جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے عام فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ’دہشت گرد‘ چھپنے کے لیے شہری مقامات چنتے ہیں تو پھر وہ مقامات اپنا ’تحفظ‘ کھو دیتے ہیں۔

منگل کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انالینا بیئربوک نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنے دفاع (سیلف ڈیفنس) کا مطلب صرف دہشت گردوں پر حملہ کرنا نہیں بلکہ انہیں ختم کرنا بھی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ واضح کردیا ہے کہ جب حماس کے دہشت گرد لوگوں، سکولوں اور شہری مقامات کے پیچھے چھپتے ہیں توہم بہت شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، لیکن ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اسی وجہ سے میں نے اقوام متحدہ کو واضح کیا ہے کہ شہری مقامات اس وقت اپنی محفوظ حیثیت کھو دیتے ہیں، جب دہشت گرد ان کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے جرمنی کھڑا ہے اور اسی لیے اسرائیل کی سکیورٹی ہمارے لیے معنی رکھتی ہے۔‘

اس متنازع بیان سے ایک روز قبل یعنی پیر کو جرمنی کی وزارت خارجہ کے ترجمان سبیسٹین فشر نے بھی برلن میں نیوز بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ’جرمنی اسرائیل کی جانب سے گذشتہ سال سے محصور غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے کوئی آثار نہیں دیکھ رہا۔‘

ترکی کے خبر رساں ادارے انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے نامہ نگاروں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں کوئی علامت نظر نہیں آتی ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔‘

جرمن ترجمان نے اسرائیل کے لیے اپنے ملک کی مضبوط حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی جس میں وزیر خارجہ انالینا بیئربوک کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے پر پابندی عائد کرنے کی بات کی گئی تھی۔

جرمنی کے اخبار ’بیلڈ‘ اور امریکن ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کی رپورٹس کے مطابق جرمنی کے نائب چانسلر رابرٹ ہیبیک اور وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اسرائیل کو اسلحے کی برآمدات کی مخالفت کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹس کے مطابق جرمنی کی وفاقی سلامتی کونسل میں اسرائیل کو اسلحے کی برآمدات کی منظوری سے انکار کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ سینیئر وزرا پر مشتمل ہے جو غیر ملکی ریاستوں کو اسلحے کی برآمدات سے متعلق فیصلوں کی منظوری دیتا ہے۔

گذشتہ ماہ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ دی تھی کہ پچھلے سال جرمنی نے اسرائیل کو اسلحے کی برآمدات کی منظوری دی، جس کی مالیت 36 کروڑ 35 لاکھ ڈالر ہے اور اس میں فوجی سازوسامان اور جنگی ہتھیار شامل ہیں جو 2022 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے۔

میڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ جرمنی سے اسرائیل کو 80 لاکھ ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی برآمدات کی منظوری رواں سال جنوری میں دی تھی لیکن ان برآمدات میں صرف دو فیصد مبینہ طور پر جنگی ہتھیار تھے باقی ہیلمٹ، حفاظتی واسکٹ اور مواصلات کے آلات سمیت دیگر فوجی ساز و سامان تھا۔

برطانوی حکومت کا اسرائیلی وزرا پر پابندی پر غور

برطانوی وزیراعظم کیر سٹامر نے بدھ کو کہا ہے کہ ان کی حکومت انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزرا ايتمار بن غفير اور بتسلئيل سموتريش کے خلاف پابندیوں کا جائزہ لے رہی ہے۔

پارلیمنٹ میں یہ پوچھا گیا کہ کیا حکومت ان دو اسرائیلی وزرا پر پابندی کی منظوری دے گی؟ اس پر سٹارمر نے کہا کہ ’ہم اس بارے میں غور کر رہے ہیں کیوں کہ مغربی کنارے میں ان کی پریشان کن سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ واضح طور پر ان کے نفرت انگیز تبصرے بھی موجود ہیں۔‘

قومی سلامتی کے اسرائیلی وزیر بتسلئيل سموتريش اور وزیر خزانہ ايتمار بن غفير مغربی کنارے میں ان یہودی بستیوں کے حامی ہیں، جو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھی جاتی ہیں۔

سموتريش نے یہ تجویز کرتے ہوئے بین الاقوامی غم وغصے کو ہوا دی تھی کہ فلسطینی علاقے میں اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرنے کے لیے غزہ کے 20 لاکھ  لوگوں کو بھوکے مارنے کا جواز پیش کیا جائے گا۔

اس ہفتے سابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے انکشاف کیا تھا کہ ان کی حکومت ان اسرائیلی سیاست دانوں کے خلاف پابندیوں پر کام کر رہی ہے۔

لیبر حکومت نے منگل کو مغربی کنارے میں سات اسرائیلی آباد کار چوکیوں اور تنظیموں کے خلاف علیحدہ پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا